سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
66. باب مَا رُوِيَ أَنَّ عَاشُورَاءَ الْيَوْمُ التَّاسِعُ
باب: (محرم کی) نویں تاریخ کے (بھی) عاشوراء ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2445
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ أُمَيَّةَ الْقُرَشِيَّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: حِينَ صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَنَا بِصِيَامِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ صُمْنَا يَوْمَ التَّاسِعِ". فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے“، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 20 (1134)، (تحفة الأشراف: 6566) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہود کی مخالفت میں اس کے ساتھ نو کو بھی روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا اور قولا اس کا حکم بھی دیا تھا، ویسے ایک دن پہلے بھی روزہ رہنے سے شکرانہ ادا ہو سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1134)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2445 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2445
فوائد ومسائل:
(1) سلف و خلف کے جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عاشورا سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے، مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد نویں محرم ہے۔
اور اس کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اہل عرب کا ایک انداز یہ تھا کہ اونٹوں کو چراگاہ میں چرانے کے بعد پانی پلانے کے لیے لاتے تو جب انہوں نے ایک دن پانی پلانے کے بعد دو دن چرایا ہوتا اور اگلے دن آتے تو (وردنا اربعا) ہم چوتھے دن آئے یا چوتھے دن پانی پلایا، حالانکہ درحقیقت وہ تیسرا دن ہوتا۔
اسی طرح تین دن چرانے کے بعد اگلے دن لوٹتے تو کہتے (وردنا خمسا) ہم پانشویں دن آئے یا پانچوین دن پانی پلایا حالانکہ در حقیقت وہ چوتھا دن ہوتا۔
اسی انداز پر حضرت ابن عباس عاشورا کو نویں تاریخ بتاتے ہیں۔
(خطابی) مگر یہ توجیہ مرجوح ہے راجح مفہوم آگے آرہا ہے۔
(2) اس فرمان مبارک کا یہ مفہوم ہے کہ ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔
دیگر روایات کی روشنی میں یہی معنی درست ہے۔
مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو، ان سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو۔
(مسند احمد:1/241) جناب عطاء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اوریہود کی مخالفت کرو۔
(البيهقي:4/287) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (پیش آمدہ روایت:2446 میں) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو شمار کرو جب نویں تاریخ آئے تو روزہ رکھو۔
اس سے مراد یہ نہیں کہ عاشورا نویں تاریخ کو کہتے ہیں، بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ دسویں سے پہلے نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھو۔
(افادات امام ابن القیم رحمة اللہ علیہ)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2445