سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
22. باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ
باب: افطار کے وقت کیا دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 2357
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ".
مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے، اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ”پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7449)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس 64 (5892) (الشق الأول بسند آخر)، سنن النسائی/الیوم واللیلة (299) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1993)
حسنه الدارقطني (2/182) وصححه الحاكم (1/422) ووافقه الذهبي
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2357 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2357
فوائد ومسائل:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے انسان کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے امور میں اللہ کا ذکر اور دعائیں منقول ہیں۔
ان کو اپنے عمل کا حصہ بنا لینے سے بندہ (ٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ ذِكْرًۭا كَثِيرًۭا) (الاحزاب: 41) اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔
کا مِصداق بن جاتا ہے، لہذا خود ساختہ دعاؤں سے بچنا چاہیے۔
روزہ افطار کرنے کی دعائیں اس باب میں آ گئی ہیں۔
قبولیت کے اس وقت میں انسان اپنی تمام طرح کی حاجات اللہ کے حضور پیش کرے تو سعادت ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قبضہ (مٹھی بھر) سے زائد داڑھی کا کاٹنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے مؤید نہیں۔
یہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے جو حدیث رسول کے مقابلے میں حجت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف (إعفاء اللحية) کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ مخالفت مجوس کا حکم بھی دیا تھا۔
جبکہ اس وقت کے مجوسی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے ان میں منڈوانے کا رواج عام نہ تھا، جیسا کہ اس بات کو اکثر محدثین نے بیان کیا ہے۔
صاحب تحفة الاحوذی اس مسئلہ کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے آثار سے استدلال کرتے ہیں کہ قبضہ سے اوپر زائد داڑھی کاٹ دینی چاہیے یہ استدلال ضعیف اور کمزور ہے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل شدہ مرفوع احادیث ان کی نفی کرتی ہیں۔
ان میں مطلق چھوڑنے کا حکم ہے۔
پس صریح اور مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان آثار اور اقوال دے دلیل اخذ کرنا صحیح نہیں۔
پس سلامتی والا طریقہ انہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ ظاہر احادیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے اور اس کے طول و عرض سے کچھ بال لینا برا فعل ہے۔
(تحفة الأحوذي:4/11)
(3) اس میں روزہ افطار کرنے کی جو دعا منقول ہے، وہ صحیح ہے۔
اس کے مقابلے میں مشہور دعا (اللهم لك صمت...) سندا ضعیف ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2357