سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
10. باب كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
باب: شک کے دن کے روزے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2334
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ، قَالَ:" كُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ فَأَتَى بِشَاةٍ فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ"، فَقَالَ عَمَّارٌ:" مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم اس دن میں جس دن کا روزہ مشکوک ہے عمار رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ان کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری لائی گئی، تو لوگوں میں سے ایک آدمی (کھانے سے احتراز کرتے ہوئے) الگ ہٹ گیا اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 11(1906 تعلیقاً)، سنن الترمذی/الصوم 3 (686)، سنن النسائی/الصیام 20 (2190)، سنن ابن ماجہ/الصیام 3 (1645)، (تحفة الأشراف: 10354)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم 1(1724) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (686) نسائي (2190) ابن ماجه (1645)
أبو إسحاق مدلس وعنعن
وللحديث شواهد ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 87
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2334 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2334
فوائد ومسائل:
(1) شک کے دن سے مراد یہ ہے کہ نہ معلوم آج چاند ہوا ہے یا نہیں؟
(2) اس روایت کا مفہوم صحیح روایات سے ثابت ہے، اسی لیے بعض حضرات نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2334
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 528
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص نے مشکوک دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ بخاری نے اسے تعلیقا اور پانچوں نے اسے موصولاً ذکر کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 528]
لغوی تشریح 528:
أَلیَومَ الَّذِی یُشَّکُّ فِیْہِ یُشَّکُّ صیغۂ مجہول ہے۔ وہ شعبان کا تیسواں دن ہے جبکہ اس رات چاند ابر آلودگی وغیرہ کی وجہ سے نظر نہ آئے اور یہ شک واقع ہو جائے کہ آیا رمضان ہے یا شعبان۔
فوائد و مسائل 528:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسے تعلیقًا بیان کیا ہے، نیز دیگر دلائل سے بھی شک کے دن کا روزہ رکھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سندًا ضعیف ہونے کے باوجود دیگر دیگر شواہد و متابعات کی بنا پر قابلِ عمل اور قابلِ حجت ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [أرواء الغليل: 127-125/4، رقم: 961]
2۔ شریعتِ اسلامیہ نے یہ واضح اصول مقرر فرمادیا ہے کہ روزہ رکھو تو چاند دیکھ کر رکھو اور اسی طرح روزوں کا اختتام بھی عید کا چاند دیکھ کر کرو۔ اب اگر شعبان کی انتیسویں شب چاند نظر نہ آیا تو صبح روزہ رکھنا، مشکوک ہونے کیوجہ سے ممنوع ہے۔ علمِ فلکیات کے ماہرین کی آراء گو کسی حد تک درست ہو سکتی ہیں لیکن انہیں لازمی اور حتمی نہیں کہا: جا سکتا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 528
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2190
´شک والے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔`
صلہ بن زفر کہتے ہیں: ہم عمار رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی، تو انہوں نے کہا: آؤ تم لوگ بھی کھاؤ، تو لوگوں میں سے ایک شخص الگ ہٹ گیا، اور اس نے کہا: میں روزے سے ہوں، تو عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2190]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے، محققین کی بحث سے راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہو جاتی ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 21/ 31-38)
(2) ”شک والے دن“ سے مراد شعبان کی تیس تاریخ ہے کیونکہ اس دن امکان ہوتا ہے کہ شاید رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہو۔ بعض لوگ اس دن چاند نظر آئے بغیر احتیاطاً روزہ رکھ لیتے ہیں کہ شاید چاند طلوع ہوگیا ہو، مگر یہ احتیاط شریعت حقہ کی نافرمانی ہے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: 2118- 2127)
(3) ”ابوالقاسم“ رسول اللہﷺ کی کنیت ہے۔ کبھی کبھار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو نام کے بجائے اس کنیت سے پکارتے تھے۔ عموماً رسول اللہ اور نبی اللہﷺ وغیرہ جلیل القدر الفاظ سے یاد کرتے تھے۔
(4) ”اس نے ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی۔“ جس روایت میں صحابی اس قسم کے الفاظ کہے وہ حکماً مرفوع ہوتی ہے
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2190
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 686
´شک کے دن روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔`
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔ یہ سن کر ایک صاحب الگ گوشے میں ہو گئے اور کہا: میں روزے سے ہوں، اس پر عمار رضی الله عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شبہ ہو ۱؎ (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 686]
اردو حاشہ:
1؎:
”جس میں شبہ ہو“ سے مراد 30 شعبان کا دن ہے یعنی بادل کی وجہ سے 29ویں دن چاند نظر نہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر صوم رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن،
کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو،
اس طرح شک والے دن میں قصئخ رکھنا صحیح نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 686