Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
3. باب مَنْ قَالَ هِيَ مُثْبَتَةٌ لِلشَّيْخِ وَالْحُبْلَى
باب: بوڑھوں اور حاملہ کے حق میں مذکورہ بالا حکم باقی ہے اس کے قائلین کا بیان۔
حدیث نمبر: 2318
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184، قَالَ: كَانَتْ رُخْصَةً لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْمَرْأَةِ الْكَبِيرَةِ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصِّيَامَ أَنْ يُفْطِرَا، وَيُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعُ إِذَا خَافَتَا". قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي عَلَى أَوْلَادِهِمَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» زیادہ بوڑھے مرد و عورت (جو کہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں) کے لیے رخصت ہے کہ روزے نہ رکھیں، بلکہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور حاملہ نیز دودھ پلانے والی عورت بچے کے نقصان کا خوف کریں تو روزے نہ رکھیں، فدیہ دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی مرضعہ اور حاملہ کو اپنے بچوں کے نقصان کا خوف ہو تو وہ بھی روزے نہ رکھیں اور ہر روزے کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5565) (شاذ)» ‏‏‏‏ (اس لئے کہ زیادہ بوڑھوں کے لئے اب بھی فدیہ جائز ہے، اور حاملہ و مرضعہ کا حکم فدیہ کا نہیں ہے بلکہ بعد میں روزے رکھ لینے کا ہے)

قال الشيخ الألباني: شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قتادة عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 87

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2318 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2318  
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت، جس طرح یہاں ابوداود میں آئی ہے، شاذ ہے، اسی لیے ہمارے فاضل محقق الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
لیکن حضرت ابن عباس وغیرہ کی دیگر صحیح روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے جو اس میں بیان ہوا ہے۔
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالا عام لوگوں کے حق میں منسوخ ہے اور ان پر روزہ رکھنا فرض ہے۔
مگر بعض بوڑھے جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں مگر اس کے اثرات مابعد کے متحمل نہ ہو سکتے ہوں اور انہیں ازحد مشقت ہوتی ہو تو ان کے لیے فدیہ دے کر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔
اور ایسے ہی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا مسئلہ ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے رحم میں زیر پرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت اندیشہ ہو، تو ان کے لیے بھی فدیے کی رخصت ہے۔
گویا زیادہ بوڑھے مردو عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے اور حاملہ و مُر ضِعَہ کو رخصت بچوں کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔
تاہم حاملہ اور مُرضِعَہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔
ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کے لیے فدیہ ہی کافی ہے، بعد میں قضا نہیں۔
دوسرا موقف حافظ ابن حزم کا ہے جو انہوں نے المحلیٰ (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کیا ہے۔
اور وہ یہ ہے کہ ان پر قضا ہے نہ فدیہ۔
تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں۔
چوتھی رائے ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں، وہ روزہ چھوڑ دیں، انہیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں، اور بعد میں قضا دیں۔
فضیلة الشیخ مولانا محمد علی جانباز حفظہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
(إنجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجه:5/566) اور سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔
(فتاویٰ اسلامیہ اُردو:203/2، 205) حضرت ابن عباس کی اس موقوف روایت کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے۔
(إرواء الغلیل، حدیث:912)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2318