سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
38. باب فِي الْمُرَاجَعَةِ
باب: رجعت (طلاق واپس لے لینے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2283
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا".
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کر لی۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطلاق 76 (3590)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 1 (2016)، (تحفة الأشراف: 10493)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق 2 (2310) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2283 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2283
فوائد ومسائل:
1: پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے دوران میں رجوع کیا جا سکتا ہے اور چاہیے کہ دو گواہ ضرور بنائے جائیں
2: حضرت حفصہ رضی اللہ سے رجوع کے بارے میں جناب قیس بن زید (تابعی صغیر) کی مرسل روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا کہ حفصہ سے رجوع فرما لیں۔
یہ بہت روزے رکھنے والی اور بہت قیام کرنے والی خاتون ہیں اور جنت میں آپ کی بیوی ہیں. (ارواء الغلیل‘ حدیث:2077)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2283
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3590
´(طلاق سے) رجعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع فرمایا تھا۔ واللہ اعلم، (اللہ بہتر جانتا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3590]
اردو حاشہ:
(1) اس واقعے کی تفصیل کسی حدیث میں ذکر نہیں۔ اغلب گمان یہ ہے کہ ارادۂ طلاق مراد ہے ورنہ طلاق دی ہوتی تو حرم نبوی کے بارے میں ایسی خبر اتنی گمنام نہ رہتی بلکہ مدینہ میں دھوم مچ جاتی۔ آپ نے ایک مہینے کے لیے الگ رہنے کی قسم کھائی تھی تو اسی صبح مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کے درودیوار لوگوں کی چیخوں سے گونج اٹھے تھے۔ یہ سانحہ تو مخفی رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی حدیث کے معنیٰ متعین کرنے کے لیے واقعاتی شہادت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔
(2) باب کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد رجوع مشروع ہے۔ جس طرح خاوند کے بارے میں خود مختار ہے‘ اسی طرح رجوع کے بارے میں بھی خود مختار ہے۔ رجوع کے لیے عورت کی رضا مندی ضروری نہیں‘ البتہ تیسری طلاق‘ لعان اور خلع کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جس عورت کو جماع سے پہلے طلاق ہوجائے اس سے بھی رجوع ممکن نہیں
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3590
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2016
´ہمیں سوید بن سعید نے بیان کیا۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2016]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام العصر الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں، مذکورہ بالاحدیث کے ضمن میں ایک روایت بیان کی ہے جس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اللہ تعالی نے نبئ اکرم ﷺ کو حکم دیا تھا کہ رجوع فرما لیں اور کہا تھا کہ وہ روزہ رکھنے والی اور عبادت کرنے والی خاتون ہیں اور جنت میں آپ کی بیوی ہیں۔
دیکھئے: (إلارواء: 7؍158، 159، تحت حدیث: 2077)
اس میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو انہیں زوجیت میں رکھنے کا حکم دیا۔
(2)
طلاق دینا جائز ہے لیکن بلاوجہ طلاق دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(3)
طلاق کے بعد رجوع کرلینے سے بیوی کو وہ تمام حقوق حاصل ہوجاتےہیں جو طلاق سے پہلے حاصل تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2016