سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
37. باب فِي نَسْخِ مَا اسْتُثْنِيَ بِهِ مِنْ عِدَّةِ الْمُطَلَّقَاتِ
باب: مطلقہ کی عدت والی آیت کے حکم سے مستثنٰی عورتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2282
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ سورة البقرة آية 228، وَقَالَ: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ سورة الطلاق آية 4، فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ سورة البقرة آية 237 فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا سورة الأحزاب آية 49.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء» ”اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر تک روکے رکھیں“ (سورۃ البقرہ: ۲۲۸) اور فرمایا: «واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر» ”اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے“ (سورۃ الطلاق: ۴) تو یہ عورتیں پہلی آیت کے حکم سے نکال لی گئیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن» ”اگر تم انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو انہیں کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں“ (سورۃ الاحزاب: ۴۹) اس آیت میں مذکور عورتوں کو بھی پہلی آیت کے حکم سے نکال دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم (2195)، (تحفة الأشراف: 6253) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
أخرجه النسائي (3584 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (2195)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2282 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2282
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس نے اسے نسخ یا استثنا سے تعبیر فرمایا ہے، لیکن دراصل مختف صورتوں کے مختلف احکام ہیں۔
عام مطلقہ عورت کی عدت تین حیض (یا تین طہر)ہیں۔
لیکن جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو یا جیسے حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا تو ان کی عدت تین مہینے ہو گی اور جس عورت کو خلوت اور مساس سے پہلے طلاق دے دی جائے تو اسکے لئے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔
اسی طرح جو عورت حاملہ ہو اسے طلاق مل جائے یا اس کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے جبکہ بیوہ عورت کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2282