Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
35. باب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ
باب: بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟
حدیث نمبر: 2278
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ فَقَدِمَ بِابْنَةِ حَمْزَةَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ أَنَا آخُذُهَا، أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي خَالَتُهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا، فَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا أَنَا خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَسَافَرْتُ وَقَدِمْتُ بِهَا، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَالَ:" وَأَمَّا الْجَارِيَةُ، فَأَقْضِي بِهَا لِجَعْفَرٍ تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکہ گئے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو لے آئے، جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اسے میں لوں گا، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس کا زیادہ حقدار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، وہ بھی اس کی زیادہ حقدار ہیں اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا: سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا، اور سفر کر کے اسے لے کر آیا ہوں، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں کے درجے میں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10240)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/98، 115) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وله طريق آخر عند البيھقي (8/6) والحاكم (3/211 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2278 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2278  
فوائد ومسائل:
بچے کی نگہداشت اور تربیت میں اولویت واولیت ماں کو حاصل ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے اس کے بعد خالہ ہے پھر باپ کی جانب کے رشتہ دار ہیں (عصبات)۔
امام ابن تیمیہ اور ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس تقدیم وترتیب میں بچے کے حال اور مستقبل کی مصلحت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اگر اس میں کسی واضح فتنے کا اندیشہ ہوتو ترتیب کو بدلنا لازمی ہوگا کیونکہ مثلاً بچے کو اختیار دینے کی صورت میں عین ممکن ہے کہ ناقص العقل ہونے کی وجہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے۔
اور حق میراث کی مانند نہیں کہ اس میں محض قرابت داری ہی بنیاد ہو بلکہ یہ حق ولایت ہے جیسے کہ نکاح اور مالی معاملات میں ہوتا ہے اور ان میں مصالح کو ترجیح دی جاتی ہےنہ کہ محض قرابت داری کو۔
اسی طرح بچے کی نگہداشت وتربیت میں ایک جانب واضح ظلم ہو اس کے عقیدے تعلیم و تربیت اور اخلاق وعمل کی حفاظت کا اہتمام نہ ہو اور دوسری جانب ان امور کا اہتمام ہو تو دوسری جانب کو ترجیح ہوگی۔
(تیسیر العلام شرح عمدہ الاحکام، جلد دوم، حدیث:332۔
نیل الأوطار، جلد ششم، باب من أحق بکفالة الطفل)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2278   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے رضائی بھائی تھے۔
اس لیے ان کی صاحبزادی نے آپ کو چچا چچا کہہ کر پکارا۔
حضرت زید ؓ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زید ؓ کو حضرت حمزہ ؓ کا بھائی بنادیا تھا۔
زید ؓ سے آنحضرت ﷺ نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا، مولیٰ اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کردے۔
آپ ﷺ نے حضرت زید کو آزادکرکے اپنا بیٹا بنالیا تھا۔
جب آپ نے یہ لڑکی ازروئے انصاف حضرت جعفر ؓ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔
اس حدیث سے حضرت علی ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میں تیرا ہوں، تو میرا ہے۔
مطلب یہ کہ ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔
حضرت علی ؓ نے مٹانے اور آپ کا نام نامی لکھنے سے انکار عدول حکمی کے طورپر نہیں کیا، بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق ہے اور صحیح تھی، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیا اور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔
روایت ہذا میں جو آپ کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ نبی امی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔
پھر اللہ نے آپ کو علوم الاولین و الآخرین سے مالا مال فرمایا۔
جو لوگ حضور ﷺ کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
امی ہونا بھی آپ کا معجزہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2699   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2699  
2699. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی کریم ﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ سے ان شرائط پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام فرمائیں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مشرکین نے کہا: ہم تواس رسالت کا اقرار نہیں کریں گے۔ اگر ہم یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے کبھی نہ روکیں لیکن آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا لفظ مٹادو۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم!میں تو کبھی آپ کانام نہیں مٹاؤں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے از خود وہ صلح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2699]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صلح کی دستاویز میں نسب وغیرہ کا بیان کرنا تعین اور رفع ابہام کے لیے ہوتا ہے۔
اگر اس کے بغیر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ اس حدیث کے مطابق صلح نامے میں صرف محمد بن عبداللہ لکھا گیا۔
فقہاء نے لکھا ہے:
اس طرح کی دستاویز میں والدین، نسب اور قبیلے وغیرہ کا ذکر التباس کی صورت میں ضروری ہے، بسورت دیگر ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں۔
(2)
اس روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ قوتِ ایمان کے جوش سے یہ نہ ہو سکا کہ آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
حضرت علی ؓ کو قرائن سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کا یہ ارشاد، وجوب کے طور پر نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ اس کی تعمیل نہ کرتے۔
(3)
واضح رہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مصلحت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کی کئی شرائط کو تسلیم کیا۔
آئندہ سال خود مشرکین ہی کو ان غلط شرائط کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ہم اس کی تفصیل آئندہ بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2699