سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
18. باب فِي الْخُلْعِ
باب: خلع کا بیان۔
حدیث نمبر: 2226
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطلاق 11(1187)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 21 (2055)، (تحفة الأشراف: 2103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/277، 283)، سنن الدارمی/الطلاق 6 (2316) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3279)
أخرجه ابن ماجه (2055 وسنده صحيح)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2226 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2226
فوائد ومسائل:
اگر زوجین میں ہم آہنگی نہ رہے اور شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے پر راضی نہ ہو جب کہ عورت اس کے پاس رہنے کے لیے تیار نہ ہو بلکہ علیحدگی پر مصر ہوتو اپنا معاملہ قاضی کے سامنے پیش کرے۔
وہ احوال واقعی کے پیش نظر عورت کے مطالبہء علیحدگی کی بناء پر عورت سے کہے کہ اپنا حق مہر واپس کرے اور پھر وہ انکے مابین عقد نکاح کو فسخ کردے۔
تو علیحدگی کی اس کیفیت کو خلع کہتے ہیں۔
طلاق شوہر کی طرف سے ہوتی ہے اور خلع میں مطالبہ بیوی کی طرف سے ہوتا ہے۔
اور قاضی اپنے فیصلہ تنسیخ کی تنفیذ کراتا ہے۔
خلع میں عدت صرف ایک حیض ہے۔
کیونکہ یہ فسخ نکاح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2226
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2055
´(بغیر کسی شرعی سبب کے) عورت کا خلع کا مطالبہ مکروہ ہے۔`
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2055]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خلع کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا سارا یا کچھ حق مہر خاوند کو دے کر اس سے طلاق لے لے۔
خاوند کے لیے جائز نہیں کہ جتنا مال اسے دے چکا ہے، یا جتنا حق مہر مقرر ہوا ہے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے۔
(2)
خلع کی اس صورت میں جائز ہے جب عورت اس مرد کےنکاح میں نہ رہنا چاہتی ہواور مرد اسے صحیح طریقے سے بسانے کی خواہش مند ہو۔
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیوی کو تنگ کرتا ہے تاکہ وہ مجبور ہو کر خلع پرراضی ہوجائے تو یہ مرد کا عورت پر ظلم ہے۔
(3)
عورت کے لیے جائز نہیں کہ کسی معقول وجہ کے بغیر خاوند سے طلاق لینے کی کوشش کرے۔
(4)
اگر عورت واقعی یہ محسوس کرتی ہو کہ اس کااس مرد کے ساتھ نباہ مشکل ہے تو خلع لینا جائز ہے، تاہم جس طرح مرد کو حتی الوسع طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح عورت کو چاہیے کہ جہاں تک خلع سےبچ کر گھر بسانا ممکن ہو، اس کی کوشش کرے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2055