سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
17. باب فِي الظِّهَارِ
باب: ظہار کا بیان۔
حدیث نمبر: 2221
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:" مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، قَالَ: رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ:" فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ".
عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کر دو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطلاق 19 (1199)، سنن النسائی/الطلاق 33 (3487)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 26 (2065)، (تحفة الأشراف: 6036) (صحیح)» (دیگر شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (3302)
انظر الحديث الآتي (2223)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2221 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2221
فوائد ومسائل:
ظہار میں کفارہ ادا کرنے سے پہلے قربت جائز نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2221
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3488
´ظہار کا بیان۔`
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا (یعنی اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح کہہ کر حرام کر لیا) پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے صحبت کر لی، پھر جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا (کہ ایسا ایسا ہو گیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں اس قدر بے قابو کر دیا کہ تم اس کام کے کرنے پر مجبور ہو گئے“، اس نے کہا: اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر اللہ کے رسول! میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی پازیب دیکھ لی (راوی کو شب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3488]
اردو حاشہ:
(1) اگر کوئی شخص ظہار کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر جماع کا مرتکب ہو تو یہ گناہ ہے لیکن اسے کفارہ ایک ہی دینا ہوگا کیونکہ ظہار تو ایک ہی دفعہ کیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے اس پر دگنا کفارہ لازم کیا ہے مگر یہ درست نہیں۔
(2) ”اللہ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔“ سابقہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے لیے دعا کی تھی‘ حالانکہ اس نے غلطی کا ارتکاب کیا تھا‘ مگر رسول اللہ ﷺ بہترین معلم ومربی تھے کہ آپ نے حسن خلق سے غلط کاروں کی اصلاح فرمائی۔ﷺ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3488
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3489
´ظہار کا بیان۔`
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟“ اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)۔“ اسحاق بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3489]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دو استاد ہیں: اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن عبدالاعلیٰ۔ امام صاحب نے دونوں سے روایت بیان کی ہے اور جن الفاظ میں دونوں کا اختلاف تھا ان کی نشاندہی بھی کردی۔ اس لحاظ سے امام صاحب کا نیچے یہ کہنا کہ ”یہ الفاظ محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں“ محل نظر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دونوں استاتذہ کی حدیث کا سیاق باہم مختلف اور متضاد ہے صرف معنی ومفہوم ایک ہے۔ اس طرح امام صاحب کی یہ دونوں وضاحتیں باہم متضاد معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ افادہ الاتیوبی رحمہ اللہ دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائی:29/24) (2) یہ دونوں روایات حضرت عکرمہ سے مروی ہیں جو تابعی ہیں۔ گویا وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس راویی کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اور مسند (متصل) روایت (3487) کو صحیح تسلیم نہیں کیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متصلاً بھی ثابت ہے اور تعدد طرق اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ نکالا ہے۔ دیکھیے: (الاروا: 7/178۔ 180) وذخیرۃ العقبیٰ) شرح سنن النسائی: 29/61، 62و24، 65)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3489
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2217
´ظہار کا بیان۔`
سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں صدقہ کر دو“، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارے گھر والے ہی انہیں کھا لو۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2217]
فوائد ومسائل:
ان کا یہ مطلب تھا کہ غربت کے لحاظ سے ہم سے زیادہ اس صدقے کا مستحق اور کوئی نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2217