Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
32. بَابُ مَنْ أَهَلَّ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَإِهْلاَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔
حدیث نمبر: 1559
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمٍ بِالْيَمَنِ، فَجِئْتُ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: بِمَا أَهْلَلْتَ؟ , قُلْتُ: أَهْلَلْتُ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْيٍ؟ , قُلْتُ: لَا، فَأَمَرَنِي، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَأَحْلَلْتُ فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي أَوْ غَسَلَتْ رَأْسِي، فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ، قَالَ اللَّهُ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قوم کے پاس یمن بھیجا تھا۔ جب (حجۃ الوداع کے موقع پر) میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطحاء میں ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا باندھا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کی سعی کروں چنانچہ میں اپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سر کا کنگھا کیا یا میرا سر دھویا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لیے۔ اور اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1559 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1559  
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرؓ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔
آنحضرت ﷺ نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدی تھی۔
جن کے ساتھ ہدی نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت ﷺ نے کھلوادیا۔
پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر ؓ ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر ؓ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدي أبي بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداء نہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1559   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1559  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں:
جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میرا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا ہے تو آپ نے دریافت فرمایا:
کیا تم اپنے ساتھ قربانی لائے ہو؟ میں نے کہا:
نہیں! اس پر آپ نے فرمایا:
بیت اللہ کا طواف کرو اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے حلال ہو جاؤ۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4346)
دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد میں اس کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دیتا تھا کہ جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ پہلے عمرہ کرے، پھر الگ سے ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو حج کا احرام باندھے لیکن جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو میں نے ان سے اپنا موقف بیان کیا تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1724)
حضرت عمر کی رائے تھے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں نہیں بدلنا چاہیے۔
دوسرے الفاظ میں وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حضرت عمر کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے تو اس لیے احرام نہیں کھولا تھا کہ آپ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے قبول نہیں کرنی چاہیے۔
(2)
الغرض امام بخاری ؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسی طرح کا احرام باندھا تھا لیکن ایسا کرنا صرف زمانہ نبوی کے ساتھ خاص تھا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت علی ؓ کو ان کی نیت کے مطابق ان کے احرام پر برقرار رکھا گیا کیونکہ وہ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طواف اور سعی کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا کیونکہ ان کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔
اب چونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور حج و عمرہ کے احرام واضح کر دیے گئے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ﴾ (البقرة: 196: 2)
حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔
ان حالات میں کسی کو مبہم احرام باندھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہی اشارہ ملتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1559   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2739  
´حج تمتع کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بطحاء میں تھے۔ آپ نے فرمایا: تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر تلبیہ پکارا ہے، پوچھا: کیا تم کوئی ہدی لے کر آئے ہو، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ، تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2739]
اردو حاشہ:
(1) نبیﷺ کے احرام کی طرح یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میں احرام باندھتا ہوں نبیﷺ کے احرام کی طرح۔ ورنہ انھیں اس وقت پتا نہ تھا کہ نبیﷺ نے کیا احرام باندھا ہے۔
(2) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو خود نبی اکرمﷺ نے یمن بھیجا تھا کیونکہ یہ بھی یمنی تھے، پھر یہ حجۃ الوداع کی اطلاع پر یمن سے مکہ پہنچے۔
(3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید بھی اتمام کا حکم دیتا ہے۔ ظاہر ہے حج کی نیت رکھنے والے کا عمرہ کر کے حلال ہو جانا حج کے اتمام کے خلاف ہے کیونکہ ابھی حج تو ہوا ہی نہیں، وہ حلال بھی ہوگیا۔ ہاں جو آدمی جائے ہی عمرے کی نیت سے، وہ عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ کر کے حلال ہو مگر حج کی نیت والا عمرے کا احرام کیوں باندھے؟ اور رسول اللہﷺ نے بھی حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ باوجود عمرہ داخل ہونے کے پھر بھی حلال حج کی تکمیل کے بعد ہی ہوئے تھے۔ باقی رہا آپ کا صحابہ کو یہ حکم دینا کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل کر عمرہ کر کے حلال ہو جاؤ، یہ مخصوص حکم تھا جو مخصوص حالت میں وحی کی بنا پر ہنگامی طور پر جاری کیا گیا۔ یہ ہمیشہ کے لیے ہے، لہٰذا جو حج کرنا چاہتا ہے وہ حج ہی کا احرام باندھے یا پھر حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھے اور حج کی تکمیل کے بعد ہی احرام ختم کرے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد میں کوئی شک نہیں لیکن صاحب قرآن کا عمل اور تمتع کے لیے آپ کا حکم یقینا مقدم ہے کیونکہ آپ ہی شارع ہیں، نیز یہ کوئی وقتی حکم نہ تھا جیسا کہ سیدنا عمر وغیرہ نے سمجھا بلکہ یہ استحباب ہمیشہ کے لیے ہے جیسا کہ ایک سائل کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ عمرہ حج میں تا قیامت داخل ہوگیا۔ اس سے تخصیص کا موقف کمزور ٹھہرتا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2739   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2743  
´دوسرے کی نیت پر نیت کر کے محرم حج کا تلبیہ پکارے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں یمن سے آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں جہاں کہ آپ نے حج کیا تھا اونٹ بٹھائے ہوئے تھے، آپ نے (مجھ سے) پوچھا: کیا تم نے حج کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: تم نے کیسے کہا؟ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا: «لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى اللہ عليه وسلم» میں حاضر ہوں اس تلبیہ کے ساتھ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ہے آپ نے فرمایا: بیت اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2743]
اردو حاشہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت کوئی ضروری نہیں کہ حج یا عمرے کی معین نیت کی جائے بلکہ کسی دوسرے کی نیت سے انھیں معلق بھی کیا جا سکتا ہے۔ البتہ افعال شروع کرنے سے قبل تعین ہو جانا ضروری ہے جیسا کہ مذکو رہ بالا صورت میں ہوا کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ابتداء ً تو احرام مبہم رکھا (كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)، پھر افعال شروع ہونے سے قبل آپ نے وضاحت فرما دی کہ عمرہ کر کے حلال ہوجاؤ۔ آئندہ حدیث میں بھی یہی صورت ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2739)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2743   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1724  
1724. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہواجب آپ وادی بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے دریافت کیا: آیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: تونے احرام کیسا باندھا؟ میں نے عرض کیا: نبی ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا۔ آپ نے فرمایاتو نے اچھا کیا۔ اب جاؤ بیت اللہ کا طواف کرو اور صفاو مروہ کی سعی کرو۔ (اس سے فراغت کے بعد)پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا تو اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ حج کا احرام باندھا۔ میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت تک یہی فتوی دیتا رہا۔ اس کے بعد جب میں نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر سنت رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1724]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ ابوموسیٰ ؓ کے ساتھ قربانی نہ تھی۔
جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ تھی گو انہوں نے میقات سے حج کی نیت کی تھی مگر آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کرکے ان کو عمرہ کرکے احرام کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا، ابوموسیٰ ؓ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے رہے کہ تمتع کرنا درست ہے اور حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا درست ہے، یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے تمتع سے منع کیا۔
(وحیدی)
اس روایت سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ جب آنحضرت ﷺ نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک قربانی اپنی ٹھکانے نہیں پہنچ گئی یعنی منیٰ میں ذبح یا نحر نہیں کی گئی تو معلوم ہوا کہ قربانی حلق پر مقدم ہے اور باب کا یہی مطلب تھا۔
حضرت عمر ؓ نے اللہ کی کتاب سے یہ آیت مراد لی ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ (البقرة: 196)
اور اس آیت سے استدلال کرکے انہوں نے حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا اور احرام کھول ڈالنا ناجائز سمجھا حالانکہ حج کو فسخ کرکے عمرہ کرنا آیت کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد حج کا احرام باندھ کر اس کو پورا کرتے ہیں اور حدیث سے بھی استدلال صحیح نہیں اس لیے کہ آنحضرت ﷺ ہدی ساتھ لائے تھے اور جو شخص ہدی ساتھ لائے اس کو بے شک احرام کھولنا اس وقت تک درست نہیں جب تک ذبح نہ ہو لے لیکن کلام اس شخص میں ہے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو۔
(وحیدی)
و مطابقتة للترجمة من قول عمر فیه لم یحل حتی بلغ الهدي محله لأن بلوغ الهدي محله یدل علی ذبح الهدي فلو تقدم الحلق علیه لصار متحللا قبل بلوغ الهدي محله و هذا هو الأصل و هو تقدیم الذبح علی الحلق و أما تأخیرہ فهو رخصة۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1724  
1724. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہواجب آپ وادی بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے دریافت کیا: آیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: تونے احرام کیسا باندھا؟ میں نے عرض کیا: نبی ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا۔ آپ نے فرمایاتو نے اچھا کیا۔ اب جاؤ بیت اللہ کا طواف کرو اور صفاو مروہ کی سعی کرو۔ (اس سے فراغت کے بعد)پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا تو اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ حج کا احرام باندھا۔ میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت تک یہی فتوی دیتا رہا۔ اس کے بعد جب میں نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر سنت رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1724]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس روایت سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے فرمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے احرام نہیں کھولا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی حلق کرنے سے پہلے ہے کیونکہ اگر بال منڈوا دیے ہوتے تو آپ پر احرام کی پابندی ختم ہو جانی تھی لیکن احرام کی پابندی کو قربانی ذبح کرنے تک برقرار رکھا گیا ہے۔
اصل ترتیب یہی ہے کہ قربانی، سر منڈوانے سے پہلے کی جائے، قربانی سے پہلے سر منڈوانا تو ایک رخصت ہے۔
(فتح الباري: 707/3) (2)
حضرت عمر ؓ نے قرآنی آیت اور حدیث نبوی سے تمتع کے عدم جواز پر دلیل لی ہے۔
اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حج کو فسخ کر کے عمرہ کرنا آیت کریمہ کے خلاف نہیں کیونکہ اس کے بعد حج کا احرام باندھ کر اسے پورا کیا جاتا ہے۔
اور حدیث نبوی سے استدلال بھی محل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی قربانی ساتھ لائے تھے اور جو شخص قربانی ساتھ لے کر آئے اس کے لیے قربانی ذبح ہونے تک احرام کھولنا جائز نہیں لیکن یہ کلام اس شخص سے متعلق ہے جو قربانی ساتھ لے کر نہ آیا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4346  
4346. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے میری قوم کے وطن میں بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ وادی بطحاء (خیف بنو کنانہ) میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم نے حج کا احرام باندھ لیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: نیت کیا کی تھی؟ میں نے عرض کی: یوں کہا تھا کہ میں حاضر ہوں اور جس طرح آپ نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی طرح باندھا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا تم اپنے ساتھ قربانی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا: میں اپنے ساتھ کوئی جانور نہیں لایا۔ آپ نے فرمایا: تم پہلے بیت اللہ کا طواف کرو، پھر صفا اور مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے آزاد ہو جاؤ۔ بہرحال میں نے اس طرح کیا۔ پھر بنو قیس کی خاتون نے میرے سر میں کنگھی کی۔ ہم اسی قاعدے کے مطابق حج کرتے رہے حتی کہ حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4346]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے 9ہجری میں حاکم بنا کر یمن بھیجا تھا اورحجۃ الوداع 10 ہجری میں ہوا۔

رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے تمام عرب میں اعلان کردیا تھا کہ احکام حج سیکھنے کے لیے سب لوگ جمع ہوں اور تمام گورنروں کو بھی یہی حکم تھا۔
اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے تو انھوں نے احرام باندھتے وقت یہ نیت کی تھی کہ جو احرام رسول اللہ ﷺ کا ہے وہی میراہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ قربانی کا جانور تھ اور آپ نے حج قرآن کی نیت کی تھی جبکہ حضر ت ابوموسیٰ ؓ اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔
اس لیے آپ نے انھیں عمرہ کرکے احرام کھول دینے کا حکم دیا اور حج تمتع کرنے کی تلقین کی۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے دورخلافت میں حج تمتع سے منع کردیاتھا۔
اس کی تفصیل کتاب الحج میں آچکی ہے۔

اس مقام پر اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ان کی قوم کے ملک میں گورنربنا کر روانہ کیا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4346