Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
46. باب فِي جَامِعِ النِّكَاحِ
باب: نکاح کے مختلف مسائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 2161
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، ثُمَّ قُدِّرَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے گزند سے محفوظ رکھ پھر اگر اس مباشرت سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا یا شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوضوء 8 (141)، بدء الخلق 1 (3283)، النکاح 66 (5161)، الدعوات 55 (6388)، التوحید 13 (7396)، صحیح مسلم/النکاح 18 (1434)، سنن الترمذی/النکاح 8 (1092)، سنن ابن ماجہ/النکاح 27 (1919)، (تحفة الأشراف: 6349)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 220، 243، 283، 286)، سنن الدارمی/النکاح 29 (2258) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5165) صحيح مسلم (1434)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2161 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2161  
فوائد ومسائل:
علامہ داودی نے کہا ہے کہ اس سے بچے کی کلی عصمت مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ شیطان اس کو دین کے معاملے میں فتنے میں نہیں ڈال سکے گا کہ کفر تک پہنچا دے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2161   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا یہاں تک کہ جماع کے وقت بھی`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَبْلُغُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا‏» اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الْوِقَاعِ:: 141]
تشریح:
وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تو وضو میں کیوں کر مشروع نہ ہو گا وہ تو ایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے «لاوضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑ کر اس حدیث سے استدلال فرما کر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی «لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ» [55-الرحمن:56] میں اسی کی نفی ہے۔ (قسطلانی رحمہ اللہ)

استاد العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث «لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» کے ذیل میں فرماتے ہیں:
«اي لايصح الوضوءولا يوجد شرعا الا بالتسمية اذا لا صل فى التفي الحقيقة والنفي الصحة اقرب الي الذات واكثر لزوما للحقيقة فيستلزم عدمها عدم الذات وماليس بصحيح لايجزي ولايعتد به فالحديث نص على افتراض التسمية عندابتداءالوضوءواليه ذهب احمد فى رواية وهو قول اهل الظاهر وذهبت الشافعية والحنفية ومن وافقهم الي ان التسمية سنة فقط واختار ابن الهمام من الحنفية وجوبها» [مرعاة]
اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی و شافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگر حنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام دین ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔

صاحب انوارالباری کا تبصرہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوار الباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹر مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا۔
امام بخاری کا مقام رفیع:
یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیا تاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہو جائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انہوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکر کرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی جلالت قدر و رفعت مکانی معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی تو انہوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکر کیا۔ تاکہ معلوم ہو کہ خدا کا اسم معظم ذکر کرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویا یہ استدلال نظائر سے ہوا۔ [انوار الباری، ج4، ص: 161]

مخلصانہ مشورہ:
صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زود رنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یاد کیا۔ کیا اچھا ہو کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیا کریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر و رفعت مکانی ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکار کرنے والے خود اپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کر دیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔

بخاری و مسلم میں مبتدعین و اصحاب اہواء کی روایات:
آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آ رہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگر صاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری و مسلم میں بعض جگہ مبتدعین و اہل اہواء جیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز و راست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری و مسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواء کی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط و رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
مقام غور ہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری و مسلم کے مبتدعین اور اہل اہواء کی کوئی فہرست پیش کریں گے تو اس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کامقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش:
«حبك الشئي يعمي ويصم» کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ صد افسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرما دی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں:
ہم نے ابھی بتلایا کہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکور میں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیر مکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353 سب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چار ہزار ہیں۔ ابوداؤد کی 4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم، پھر ترمذی و ابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدر و رفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوارالباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاء احادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت و سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ «الاناء يترشح بما فيه» برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سو آپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے «المرءيقيس على نفسه»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 141   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5165  
5165. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی انسان اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتو یہ دعا پڑھے۔ بسم اللہ، اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو تو ہمیں عطا کرے پھر اگر اس موقع پر ان کے لیے بچہ مقدر ہو یا اس کا فیصلہ ہو جائے تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5165]
حدیث حاشیہ:
قال الکرماني فإن قلت ما الفرق بین القضاء و القدر قلت لا فرق بینھما لغة و أما في الاصطلاح فالقضاء و ھو الأمر الکلي الإجمالی الذي في الأزل و القدر ھو الجزئیات ذالك الکلي (فتح)
یعنی کرمانی نے کہا کہ لفظ قضا اور قدر میں لغت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے مگر اصطلاح میں قضا وہ ہے جو اجمالی طور پر روز ازل میں ہو چکا ہے اور اس کلی کی جزئیات کا نام قدر ہے۔
حدیث مذکور میں لفظ ثم قدر بینھما سے متعلق یہ تشریح ہے۔
آج کل انسان اپنے جذبات میں ڈوب کر اس دعا سے غافل ہو کر خواہش نفس کی پیروی کر رہا ہے اور بے بہا نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5165   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6388  
6388. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: اللہ کے نام کی برکت سے۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور تو جو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ اگر دونوں کے ملاپ سے کوئی بچہ مقدر ہے تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6388]
حدیث حاشیہ:
عورت سے ملاپ کے وقت بھی مغلوب الشہوۃ نہ ہونا بلکہ اللہ کو یاد رکھنا اس کا اثر یہ ہونا لازمی ہے کہ آدمی کی اولا د پر بھی اس کیفیت کا پورا پورا اثر پڑے گا اور وہ یقینا شیطانی خصائل واثرات سے محفوظ رہیں گے کیونکہ ماں باپ کے خصائل بھی اولاد میں منتقل ہوتے ہیں۔
إلا أن یشاء اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6388   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7396  
7396. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ نےفرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ لے: شروع اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھنا اور جو کچھ تو ہمیں عطا کرے اس سے بھی شیطان کو دور رکھنا۔ اگر اس صحبت میں کوئی بچہ ان دونوں کے نصیب میں ہوا تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7396]
حدیث حاشیہ:
بوقت جماع بھی اللہ کے نام کے ساتھ برکت طلب کرنا ثابت ہوا‘ یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7396   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3271  
3271. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے اور بسم اللہ پڑھ کر یہ دعا کرے۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے علیحدہ رکھ اور تو جو اولاد ہمیں عنایت فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ پھر اگر انھیں بچہ دیا گیا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3271]
حدیث حاشیہ:
یہ اپنی عورت سے جماع کرتے وقت پڑھنے کی دعائے مسنونہ ہے۔
جس کے بہت سے فوائد ہیں جو تجربہ سے معلوم ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3271   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا`
«. . . قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 141]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ بیوی سے صحبت کرنا ایک جسمانی فعل ہے اور وضو کرنا ایک عبادت اور روحانی فعل ہے جب جسمانی فعل میں بسم اللہ کہنا ضروری ہے تو کیوں کر وضو جو عبادت ہے اس میں بسم اللہ کہنا ضروری نہ ہو۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس العموم ظاهرا من الحديث الذى اورده، لكن يستفاد من باب الاوليٰ لانه اذا شرع فى حالة الجماع وهى مما امر فيه بالصمت فغيره الاوليٰ . . . .» [فتح الباري ج1ص 322]
اور عموم ظاہر یہ ہے حدیث سے جس کو باب میں (امام بخاری رحمہ اللہ) نے وارد کیا ہے لیکن مستفاد ہوتا ہے، بطریق اولیٰ اس واسطے کہ جب (تسمیہ) جماع کی حالت میں مشروع ہے حالانکہ اس حالت میں چپ رہنے کا حکم ہے تو پھر اس کے علاوہ تو (تسمیہ پڑھنا) اولیٰ ہو گا۔
↰ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جماع کے وقت جب چپ رہنے کا حکم ہے تو اس وقت بھی تسمیہ پڑھنا مسنون ٹھہرا تو کیوں کر دوسرے نیک کاموں میں تسمیہ مشروع نہ ہوگا؟

◈ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:
«التسمية الوضؤ بالحديث الذى اور ده فى هذا الباب لد لالته على استحباب تسمية الله عند الوقاع الذى هو ابعد الاحوال عن ذكر الله ففي الوضوء بالطريق الاولي» [شرح تراجمه من ابواب البخاري ص 65]
یعنی وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے والی حدیث کو ترجمۃ الباب میں لایا گیا ہے جو اس بات پر دلالت ہے کہ صحبت کے وقت بھی تسمیہ پڑھنا مستحب ہے جو کہ (یہ فعل) دوسرے احوال سے بعید ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے (لیکن جب اس میں تسمیہ ثابت ہو گیا تو) باقی اعمال میں بطریق اولیٰ جائز ہے۔
↰ یہی تطبیق علامہ قسطلانی نے بھی دی ہے۔ [ديكهيے ارشاد الساري، ج1، ص 325]

(قلت) مزید اگر ترجمۃ الباب میں غور کیا جائے تو مناسبت کچھ اس طرح سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے:
➊ جزء عام یعنی «على كل حال»
➋ جزء خاص یعنی «عندالوقاع» ہے۔
اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلے جزء میں ہر نیک کام کی ابتداء تسمیہ سے ثابت ہوئی اور دوسرے جزء میں الفاظ «اذاتي اهله» سے مراد بیوی کے پاس آنا یعنی «عندالوقاع» ثابت ہوا۔ مزید اگر غور کیا جائے تو آدمی جب اپنی بیوی کے پاس صحبت کی غرض سے جاتا ہے تو فارغ ہونے کے بعد اسے وضو کرنا چاہئیے جب وہ وضو کرے گا تو اس کی ابتدا میں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ بغیر تسمیہ کے وضو نہیں۔ پس یہاں سے بھی ترجمۃ الباب میں مناسبت ہو گی۔

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ جماع ایک جسمانی فعل ہے جب اس میں تسمیہ ہے تو پھر وضو ایک روحانی اور جسمانی فعل ہے تو اس میں بھی تسمیہ بطریق اولی ہوگا۔ «الله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 120   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 874  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جاتے وقت یہ دعا پڑھے «بسم الله، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم جنبنا الشيطان، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام کے ساتھ، الٰہی ہمیں شیطان سے کنارہ کش رکھ اور شیطان کو بھی اس سے دور رکھ جو تو ہمیں اولاد عطا فرمائے۔ تحقیق شان یہ ہے کہ اگر اس مجامعت سے ان کے مقدر و قسمت میں اولاد ہو گی تو شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 874»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب مايقول الرجل إذا أتي أهله، حديث:5165، 7396، ومسلم، النكاح، باب ما يستحب أن يقوله عند الجماع، حديث:1434.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مباشرت کے وقت انسان کے ازلی و ابدی دشمن سے بچنے اور محفوظ رہنے کی دعا کا ذکر ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شیطان صرف ذکر الٰہی کے وقت انسان سے جدا اور الگ ہوتا ہے‘ بصورت دیگر وہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور کسی حالت میں بھی آدمی سے جدا اور الگ نہیں ہوتا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 874   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1919  
´بیوی سے پہلی ملاقات پر کون سی دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے «اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني» اے اللہ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1919]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خلوت کا وقت صنفی جذبات کی تسکین کا وقت ہوتا ہے۔
مومن اس وقت بھی اپنے رب کو فراموش نہیں کرتا۔

(2)
خاوند بیوی کے تعلقات کا مقصد محض صنفی لذت کا حصول نہیں بلکہ نیک اولاد کا حصول بھی ایک اہم مقصد ہے۔

(3)
بہتر ہے کہ مذکورہ دعا بے لباس ہونے سے پہلے پڑھ لی جائے۔

(5)
اس دعا کا یہ فائدہ ہے کہ اس کی برکت سے خلوت کا وقت شیطان دور رہتا ہے، لہذا اولاد میں شیطان سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور بعض خاص بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1919   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:526  
526- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوئے، اے اللہ تو ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو رزق (یعنی اولاد) تو ہمیں عطا کرے گا، اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں): اگر ان کی تقدیر میں (اس صحبت کے نتیجے میں) اولاد ہوئی تو شیطان اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:526]
فائدہ:
اس حدیث میں بیوی سے جماع کرنے سے پہلے کی دعا کا ذکر ہے، یہ دعا ہر شادی شدہ اور شادی کروانے والے کو زبانی یاد کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دعا نہ پڑھنے کا بہت بڑا نقصان بھی، اس حدیث میں مذکور ہے کہ شیطان اس بچے کو نقصان پہنچائے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 526   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3533  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی بیوی سے تعلقات قائم کرتے وقت یہ دعا پڑھ لے، (اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان کے (شر سے) بچا اور ہم کو جو اولاد دے، اس سے بھی شیطان کو دور رکھ، تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لیے بچہ مقدر ہو گا، تو شیطان کبھی اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا (وہ ہمیشہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا۔) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3533]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے غافل رہ کر جانوروں کی طرح شہوت نفس کا تقاضا پورا کر لیا جائے تو ایسی مباشرت سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ شیطان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گی،
اور اس دور میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال،
اخلاق،
عادات جو عام طور پر خراب و برباد ہیں اس کی خاص بنیاد یہی ہے،
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور کی ہدایات اور ارشادات سے استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ان کی قدرشناسی ہمت و حوصلہ دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3533   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:141  
141. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے، آپؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے: اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عنایت فرمائے۔ پھر ان دونوں کو اگر کوئی اولاد نصیب ہو تو شیطان اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:141]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ جو وضو میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس کا وضو نہیں ہے۔
(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 25)
چونکہ یہ روایت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے اس کے اثبات کے لیے ایک نئی راہ نکالی جو ان کی دقت نظر اور جلالت قدر کی ایک واضح دلیل ہے، فرماتےہیں کہ تسمیہ (بسم اللہ پڑھنا)
تو ہرحال میں مطلوب ہے اور انہی حالات میں ایک حالت جماع بھی ہے۔
یہ ایک ایسی حالت ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس وقت اللہ کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایک تو برہنگی کی صورت ہے، پھر خالص قضاء شہوت کا شغل ہے لیکن شریعت میں اس حالت کے لیے بھی ایک مخصوص دعا منقول ہے۔
جب اس حالت میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو وضوء سے پہلے تو بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے کیونکہ وضو خود بھی عبادت ہے اور ایک بڑی عبادت کا پیش خیمہ بھی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکور دعا کو بوقت جماع پڑھنا چاہیے۔
بعض طرق میں صراحت ہے کہ جماع کا ارادہ کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
(فتح الباري: 318/1)
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، اگر کوئی عربی زبان میں یہ دعا نہ پڑھ سکتا ہو تو کیا اسے فارسی میں یہ کلمات کہنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:
ہاں۔
(شرح الكرماني: 183/2)

عام طور پر بیوی سے صحبت کے بعد استنجا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آگے آداب خلا(قضائے حاجت)
بیان کیے جا رہے ہیں، جس طرح جماع کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے بچہ شیطانی ضرر سے محفوظ رہتا ہے، اسی طرح بیت الخلا جاتے وقت تسمیہ کا عمل انسان کے پوشیدہ اعضاء کو شیاطین کے شر سے محفوظ کر دیتا ہے۔
اس سے علامہ کرمانی کااعتراض بھی ختم ہوجاتا ہے کہ بخاری ابواب قائم کرنے میں حسن ترتیب کی رعایت نہیں کرتے، وہ فن حدیث میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کی کوشش کا محور صرف صحیح احادیث کا جمع کردینا ہے۔
(شرح الکرماني: 183/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 141   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3271  
3271. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے اور بسم اللہ پڑھ کر یہ دعا کرے۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے علیحدہ رکھ اور تو جو اولاد ہمیں عنایت فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ پھر اگر انھیں بچہ دیا گیا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3271]
حدیث حاشیہ:

شریعت کا تقاضا ہے کہ ہر کام کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے تاکہ شیطان کو دخل اندازی کا موقع نہ ملے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا﴾ جو شخص رحمٰن کے ذکر سے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔
(الزخرف: 43۔
36)

اس حدیث میں ایک مسلمان کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا چاہیے تاکہ شیطان اس پر اور اس کی اولاد پر مسلط نہ ہو سکے۔
چنانچہ ایک روایت میں ہے۔
مذکورہ دعا پڑھنے سے اس کی ہونے والی اولاد پر شیطان مسلط نہیں ہو سکے گا۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3283)

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ شیطان ہر وقت اہل ایمان کو تکلیف دینے کے درپے رہتا ہے اور یہ اس کی بری صفات میں سے ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3271   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3283  
3283. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سےکوئی اپنی بیوی کے پاس آنا چاہے تو کہے: اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس اولاد سے بھی دور رکھ جو تو مجھے عطا کرے۔ اگر اس صحبت سے کوئی بچہ پیدا ہوا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور نہ اس پر قابو ہی پاسکے گا۔ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے حضرت سالم نے، ان سے کریب نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے ایسی ہی روایت بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3283]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے بھی بیان ہوچکی ہے۔
شیطان کے نقصان نہ پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس پر شیطان اس طرح مسلط نہیں ہوسکے گا کہ اسے کوئی نیک عمل ہی نہ کرنے دے۔
اس سے ہرقسم کی وسوسہ اندازی سے حفاظت مراد نہیں۔
بہرحال اس قسم کےاعمال و وضائف کو زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔

واضح رہے کہ مذکورہ دعا صرف خاوند کے لیے ہی نہیں بلکہ بیوی کو بھی اسے پڑھنا چاہیے۔

حدیث کے آخر میں ایک دوسری سند بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت شعبہ کےدواستاد ہیں:
ایک منصور اور دوسرے اعمش۔
یہ دونوں حضرت سالم سے بیان کرتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3283   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5165  
5165. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی انسان اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتو یہ دعا پڑھے۔ بسم اللہ، اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو اس سے دور رکھ جو تو ہمیں عطا کرے پھر اگر اس موقع پر ان کے لیے بچہ مقدر ہو یا اس کا فیصلہ ہو جائے تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5165]
حدیث حاشیہ:
(1)
شیطان کے تکلیف نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ بچے کے باپ کے ساتھ اس کی ماں سے جماع میں وہ شریک نہ ہو سکے گا جیسا کہ امام مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آئے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان جماع میں شریک ہو جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس معنی کو"أقرب" قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 296/9) (2)
بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بچوں کی شکل و صورت تو ماں باپ جیسی ہوتی ہے لیکن عادات و خصائل شیطان جیسے ہوتے ہیں، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب کائنات کے چودھری کی بنیاد رکھی جا رہی ہوتی ہے تو حضرت انسان نفسا نفسی کے عالم میں اپنی شہوت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اللہ کے نام کو فراموش کر دیتا ہے۔
اس نحوست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ نہیں رہتی۔
والله اعلم (3)
اس حدیث میں قضا و قدر کا ذکر ہے۔
قضا اجمالی طور پر امر کلی کا نام ہے جو ازل میں ثابت ہے جبکہ قدر اس کی تفصیلات کا نام ہے جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں اس کے متعلق اشارہ ہے:
ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم انھیں ایک معلوم اندازے کے مطابق اتارتے ہیں۔
(الحجر: 21، و عمدة القاري: 123/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5165   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6388  
6388. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: اللہ کے نام کی برکت سے۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور تو جو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ اگر دونوں کے ملاپ سے کوئی بچہ مقدر ہے تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6388]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ دعا جماع کرتے وقت نہیں بلکہ بیوی سے مباشرت کے ارادے کے وقت پڑھے۔
آدمی کو اس وقت مغلوب الشہوت نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر مذکورہ دعا پڑھی جائے، پھر ملاپ کا آغاز کرے۔
اس طرح آدمی کی اولاد پر اس کیفیت کا پورا پورا اثر پڑے گا۔
یقیناً ایسی اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گی۔
اس کے برعکس اگر اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر محض حیوانوں کی طرح اپنے نفس کا تقاضا پورا کر لیا تو ایسی مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد شیطان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گی۔
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کائنات کے چودھری کی بنیاد رکھتے وقت کائنات کے خالق کو نظرانداز کر دیا جائے۔
(2)
دور حاضر میں پیدا ہونے والی نسلوں کے اخلاق و عادات جو عام طور پر خراب ہیں اس کی خاص بنیادی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرنے، فائدہ اٹھانے اور قدر شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شیطان کے شر سے حفاظت سے مراد اس کے دین اور بدن کی حفاظت ہے، وسوسہ اندازی سے حفاظت مقصود نہیں کیونکہ یہ کام تو چلتا رہے گا۔
(فتح الباري: 228/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6388   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7396  
7396. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ نےفرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ لے: شروع اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھنا اور جو کچھ تو ہمیں عطا کرے اس سے بھی شیطان کو دور رکھنا۔ اگر اس صحبت میں کوئی بچہ ان دونوں کے نصیب میں ہوا تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7396]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے وسیلے سے پکارنے اور اس سے دعا کرنے کی ایک دوسری قسم بیان ہوئی ہے کہ انسان جب اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے بیوی کے پاس جاتا ہے تو اگر اس وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے اوراس ذکر سے اس کی عبادت کرے، نیز اللہ تعالیٰ کے نام کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا مطلب عطا کرتا ہے۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین، نیز اس کے رسول کی صداقت پر ایمان ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو شیطان کے بہکاوے سے محفوظ رکھتا ہے۔
بہرحال اس حدیث میں ایک دوسرے انداز سے اس آیت کی تفسیر بیان ہوئی ہے:
سب سے اچھے نام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، لہذا تم اسے انھی ناموں سے پکارا کرو۔
(الأعراف 180)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7396