�
تشریح: وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تو وضو میں کیوں کر مشروع نہ ہو گا وہ تو ایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے
«لاوضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑ کر اس حدیث سے استدلال فرما کر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی
«لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ» [55-الرحمن:56] میں اسی کی نفی ہے۔
(قسطلانی رحمہ اللہ) استاد العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث
«لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه» کے ذیل میں فرماتے ہیں:
«اي لايصح الوضوءولا يوجد شرعا الا بالتسمية اذا لا صل فى التفي الحقيقة والنفي الصحة اقرب الي الذات واكثر لزوما للحقيقة فيستلزم عدمها عدم الذات وماليس بصحيح لايجزي ولايعتد به فالحديث نص على افتراض التسمية عندابتداءالوضوءواليه ذهب احمد فى رواية وهو قول اهل الظاهر وذهبت الشافعية والحنفية ومن وافقهم الي ان التسمية سنة فقط واختار ابن الهمام من الحنفية وجوبها» [مرعاة] اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی و شافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگر حنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام دین ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔
صاحب انوارالباری کا تبصرہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوار الباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹر مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا۔
امام بخاری کا مقام رفیع: یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیا تاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہو جائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انہوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکر کرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی
”جلالت قدر و رفعت مکانی
“ معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی تو انہوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکر کیا۔ تاکہ معلوم ہو کہ خدا کا اسم معظم ذکر کرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویا یہ استدلال نظائر سے ہوا۔
“ [انوار الباری، ج4، ص: 161] مخلصانہ مشورہ: صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زود رنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یاد کیا۔ کیا اچھا ہو کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیا کریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر و رفعت مکانی ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکار کرنے والے خود اپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کر دیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔
بخاری و مسلم میں مبتدعین و اصحاب اہواء کی روایات: آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آ رہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگر صاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری و مسلم میں بعض جگہ مبتدعین و اہل اہواء جیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
”حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز و راست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری و مسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواء کی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط و رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔“ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
مقام غور ہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری و مسلم کے مبتدعین اور اہل اہواء کی کوئی فہرست پیش کریں گے تو اس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کامقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش: «حبك الشئي يعمي ويصم» کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ صد افسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرما دی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں:
”ہم نے ابھی بتلایا کہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکور میں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیر مکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353 سب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چار ہزار ہیں۔ ابوداؤد کی 4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم، پھر ترمذی و ابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔“ [انوارالباري،ج4،ص: 53]
حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدر و رفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوارالباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاء احادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت و سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ
«الاناء يترشح بما فيه» برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سو آپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے
«المرءيقيس على نفسه»