Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
44. باب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ غَضِّ الْبَصَرِ
باب: نظر نیچی رکھنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 2154
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ:" وَالْأُذُنُ زِنَاهَا الِاسْتِمَاعُ".
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ روایت کرتے ہیں اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: اور کانوں کا زنا سننا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12867)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/379) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
وله شاھد في صحيح مسلم (2657) وبه صح الحديث

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2154 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2154  
فوائد ومسائل:
1: گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں، کبیرہ اور صغیرہ (بڑے اور چھوٹے) کبیرہ گناہ وہ ہیں جن پرشریعت نے کوئی حدوتعزیرمقررکر دی ہے یا ان پر عذاب شدید، لعنت یا کوئی سخت وعید سنائی ہے، ایسے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔
صغیرہ گناہ وہ ہیں جو اتفاقا ہو جاتے ہیں اور شریعت کی طرف سےان پر کوئی حدوتعزیر نہیں لگائی گئی ہے۔
انہی کو (لمم) سے تعبیر کہا گیا ہے۔
سورۃ النجم میں محسنین کے ذکر میں فرمایا ہے وہ جو بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے مگر عام قسم کے گناہوں سے صغیرہ گناہ عام نیکی کے کاموں سے معاف ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب ایمان کو ان میں جری نہیں ہو جانا چاہیے، کیونکہ معاف کرنا یا نہ کرنا، اللہ عزوجل کی مشیت پر مبنی ہے، نیز علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی صغیرہ نہ جانے اور ان کو اپنی عادت بنا لے تو وہ بھی کبیرہ کے زمرہ میں آجاتے ہیں۔
اسی طرح اگر بلا ارادہ کوئی کبیرہ گناہ سرزرد ہو گیا ہو تو انسان نادم ہو اور کثرت سے توبہ کرنے لگے تو وہ ان شا ء اللہ صغیرہ کی مانند معاف کر دیا جائے گا، بہر حال انسان کو اپنے معلوم اور غیر معلوم سبھی گناہوں سے اللہ کے حضور معافی مانگتے رہنا چاہیے۔

2: اعضائے جسم نظر، کان ہاتھ، قدم اور منہ کے گناہوں کو زنا سے تعبیر کرنا، ان کے ازحد قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا انجام انتہائی بر اہو سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2154