سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
35. باب فِي الْمَقَامِ عِنْدَ الْبِكْرِ
باب: کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟
حدیث نمبر: 2124
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، وَإِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا"، وَلَوْ قُلْتُ: إِنَّهُ رَفَعَهُ لَصَدَقْتُ، وَلَكِنَّهُ قَالَ:" السُّنَّةُ كَذَلِكَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ”سنت اسی طرح ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 100 (5213)، 101 (5214)، صحیح مسلم/الرضاع 12 (1461)، سنن الترمذی/النکاح 40 (1139)، سنن ابن ماجہ/النکاح 26 (1916)، (تحفة الأشراف: 944)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النکاح 5(15)، سنن الدارمی/النکاح 27 (2255) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5213) صحيح مسلم (1461)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2124 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2124
فوائد ومسائل:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔
2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2124
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 907
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 907»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا تزوج الثيب علي البكر، حديث:5214، مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من إقامة الزوج عندها عقبالزفاف، حديث:1461.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نئی بیوی کے ساتھ زفاف کی راتیں بسر کرنا اس کا حق ہے اور دوسری بیویوں پر اسے ترجیح دی جائے گی۔
یہ مدت ختم ہونے کے بعد پھر نئی اور پرانی بیویاں باریوں کی تقسیم میں مساوی استحقاق رکھتی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 907
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1916
´کنواری اور غیر کنواری کے پاس رہنے کی مدت۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کر دیں)“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1916]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پہلی بیوی یا بیویوں کی موجودگی میں جب نئی شادی کی جائے تو نئی دلہن کے پاس چند دن رہ کر پھر باری مقرر کرنی چاہیے۔
(2)
نئی آنے والی دلہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہے یعنی یہ اس کا دوسرا نکاح ہے تو خاوند کو چاہیے کہ تین دن اس کے ہاں رہائش رکھے، یعنی اس کی رہائش کے لیے جو مکان یا کمرہ مقرر کیا ہے اس میں رہائش رکھے اور اگر نئی بیوی کنواری ہے تو پورا ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہے۔
(3)
تین دن یا سات دن نئی بیوی کے پاس رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس دوران میں پہلی بیویوں کو فراموش ہی کر دے۔
مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ وقت دے اور رات اس کے ساتھ گزارے۔
(4)
یہ مدت ختم ہونے کے بعد نئی بیوی کے بھی اتنے ہی حقوق ہوں گے جتنے پہلی بیویوں کے ہیں۔
جس طرح دوسری بیویوں کی باری ہوگی، اسی طرح نئی بیوی کی بھی باری ہو گی۔
خاوند اخراجات اور شب باشی میں اس کے ساتھ دوسری بیویوں جیسا سلوک کرے گا۔
اس کے ہاں وہی رات گزارے گا جب اس کی باری ہو گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1916
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1139
´کنواری اور غیر کنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: ”سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1139]
اردو حاشہ:
وضاخت:
1؎:
صحابی کا ”سنت یہ ہے“ کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے،
تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1139
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3627
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، سنت یہ ہے کہ کنواری کے ہاں سات دن ٹھہرے، خالد کہتے ہیں، اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں۔ انہوں نے اس کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3627]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تین دن کوپسند کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تین دن باری میں شمار نہیں ہوں گے۔
اور پھر باری جلدی آ جائےگی۔
اوردوسری حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نئی دلہن اگر کنواری ہو تو اس کو باری سے الگ سات دن ملیں گے،
پھر باری شروع ہو گی اوراگر شوہر دیدہ ہو تو تین دن کے بعد باری کا آغاز ہو جائےگا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ۔
شعبی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورنخعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے۔
امام سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ۔
نافع رحمۃ اللہ علیہ۔
اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کنواری کے لیے تین دن اور بیوہ کے لیے دو دن زائد ہوں گے۔
لیکن احناف کے نزدیک پہلے دن سے ہی باری ہو گی،
کوئی زائد دن نہیں ملے گا۔
پھر نئی دلہن کےپاس جتنے دن ٹھہرے گا بعد میں ہر بیوی کے ہاں اتنے ہی دن ٹھہرے گا۔
لیکن یہ بات حدیث کے منافی ہے نیز جب صحابی من السنۃ کا لفظ استعمال کرے تو یہ جمہور محدثین کے نزدیک حکماً مرفوع ہے اور خالد راوی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3627
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5213
5213. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے کہا: سنت یہ ہے کہ جب آدمی کسی (شوہر دیدہ بیوی کی موجودگی میں) کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس دن گزارے اور جب کنواری کی موجودگی میں شوہر دیدہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5213]
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد باری باری دونوں کے پاس رہا کرے۔
نئی بیوی کو خاوند سے ذرا وحشت ہوتی ہے خصوصاً کنواری کو جس کے لئے سات دن اس لئے مقرر کئے کہ اس کی وحشت دور ہو کر اس کا دل مل جائے اس کے بعد پھر باری باری رہے تاکہ انصاف کے خلاف نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5213
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5213
5213. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے کہا: سنت یہ ہے کہ جب آدمی کسی (شوہر دیدہ بیوی کی موجودگی میں) کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس دن گزارے اور جب کنواری کی موجودگی میں شوہر دیدہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5213]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ مسنون اس لیے ہے کہ کنواری میں شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے۔
وہ محبت اور مہر و وفا کی بھی زیادہ حقدارہے، لہٰذا اس کے لیے سات دن مقرر کیے گئے ہیں تاکہ اس کی وحشت دور ہو جائے اور اس کا دل لگ جائے، نیز وہ آسانی اور شوہر کی نرمی کو پسند کرتی ہے جبکہ شوہر دیدہ کے لیے تین دن اس لیے مقرر ہیں کہ وہ جلدی مانوس ہو جاتی ہے اور ماحول میں گھل مل جاتی ہے۔
اس نے چونکہ شوہر کا تجربہ کیا ہوتا ہے اور جماع کی وجہ سے اس کی حیا بھی کم ہوتی ہے۔
(2)
واضح رہے کہ یہ وہ ایام ہوں گے جو میل ملاپ میں مانع نہ ہوں اور ان میں عورت کو حیض نہ آتا ہو۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5213
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5214
5214. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا، سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص شوہر دیدہ بیوی موجودگی میں کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات دن تک قیام کرے پھر باری کا آغاز کرے۔ اورجب کسی کنواری بیوی کی موجودگی میں کسی شوہر دیدی سے شادی کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک قیام کرے پھر بار کا اہتمام کرے ابوقلابہ نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ سیدنا انس ؓ نے یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے (راوی حدیث) خالد نے کہا: اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ سیدنا انس ؓ نے یہ حدیث نبی ﷺ سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5214]
حدیث حاشیہ:
كچھ حضرات کا موقف ہے کہ شوہر دیدہ اور کنواری کے لیے تین دن ہی قیام کیا جائے ان کا کہنا ہے کہ کنواری کے پاس سات دن اور شوہر دیدہ کے پاس تین دن عدل و انصاف کے منافی ہے لیکن یہ موقف مذکورہ احادیث کے خلاف ہے، نیز ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو آپ نے ان سے فرمایا:
”آپ کا خاندان میرے ہاں انتہائی قابل احترام ہے، اگر آپ چاہتی ہیں تو آپ کے لیے سات دن تک قیام کرسکتا ہوں لیکن اس صورت میں باقی بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہوں گا، پھر باری مقرر کی جائے گی۔
اور اگر آپ چاہیں تو آپ کے ہاں تین دن قیام کر کے اس کے فوراً بعد باری مقرر کر دی جائے گی۔
“ تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
آپ میرے پاس تین دن ہی قیام رکھیں۔
(صحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 3622 (1460)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5214