سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
29. باب الصَّدَاقِ
باب: مہر کا بیان۔
حدیث نمبر: 2107
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ فَمَاتَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلَافٍ، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: حَسَنَةُ هِيَ أُمُّهُ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن حجش کے نکاح میں تھیں، حبشہ میں ان کا انتقال ہو گیا تو نجاشی (شاہ حبشہ) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور آپ کی جانب سے انہیں چار ہزار (درہم) مہر دے کر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کر دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حسنہ شرحبیل کی والدہ ۲؎ ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15855) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سب سے زیادہ انہیں کا مہر تھا، باقی ازاواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر حد سے حد پانچ سو درہم تک تھا، جیسا کہ حدیث نمبر (۲۱۰۵) میں گزرا۔
۲؎: یہ والد کے بجائے اپنی والدہ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الحديث السابق (2086)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 80
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2107 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2107
فوائد ومسائل:
1: غنی اور صاحب وسعت آدمی کی حیثیت کے مطابق زیادہ مہر دے تو اچھی بات کہے کوئی ناجائز نہیں۔
تاہم محض دکھاوے کی نیت سے زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کر لینا اور پھر اسے ادا نہ کرنا، یکسر غلط ہے اسی طرح وسعت ہونے کے باوجود برائے نام مہر مقرر کرنا بھی غلط ہے، حق مہر کم یا زیادہ، طاقت کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔
2: علاوہ ازیں اس سلسلے میں کوئی دوسرا کفیل بن جائے تو درست تو درست ہے، کوئی حرج نہیں بلکہ نیکی میں تعاون ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2107
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3352
´مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسر [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3352]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ ابوداود (حدیث: 2086) میں اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بہت زیادہ شواہد ہیں۔ لیکن ان شواہد کی صحت وضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘ نیز دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت دلائل کی رو سے صحیح قرار پاتی ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) ”حبشہ میں تھی“ دراصل یہ اپنے خاوند عبیداللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد مالی مفاد کی خاطر عبیداللہ بن حجش عیسائی بن گیا اور اسی ارتداد کی حالت میں فوت ہوا۔ حضرت ام حبیبہؓ اسلام پر قائم رہیں۔ آپ کو صورت حال کا پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کا پیغام دے کر حضرت نجاشی شاہ حبش کے پاس بھیجا۔
(3) یہ 6 یا سات ہجری کی بات ہے۔ اس وقت حضرت ام حبیبہؓ سے شادی کرنا ایک طرف تو ایک غریب الدیار عورت جو اپنے ماں باپ کو مستقلاً آپ کے لیے چھوڑ چکی تھی‘ واحد سہارا خاوند مرتد ہو کر مرچکا تھا‘ کی حوصلہ افزائی اور قدر بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑا سیاسی فیصلہ ہے جس نے کفار قریش کی کمر توڑدی اور ابوسفیان آپ سے لڑنے کے قابل نہ رہے۔
(4) شادی کے موقع پر بیٹی یا بہن وغیرہ کی تالیف قلب کے لیے بطور تحفہ نیا گھر بسانے کے لیے ضرورت کی کچھ اشیاء دے دینا مستحب ہے۔ بیٹے کی شادی پر خرچ کرنا اور بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج دینا مساوات اسلامی کے منافی ہے۔ البتہ اس میں غور اور تکلف نا جائز ہے‘ نیز اس سے مروجہ جہیز کے جواز پر استدلال بھی درست نہیں۔ یہ ایک غیر اسلامی رسم ہے جس میں بہت سی قباحتیں ہیں‘ مثلاً: جہیز نہ لانے پر لڑکی کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنا‘ روزانہ کی طعن وتشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردینا‘ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا اور اس میں مختلف چیزوں کا مطالبہ کرنا اور نتیجتاً لڑکی کے اولیاء کا قرض کے بارگراں تلے دب جانا وغیرہ جس کی تفصیل حدیث: 3386 کے فائدے میں دیکھی جاسکتی ہے۔
(5) ”چار سودرہم“ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ دس اوقیے کا ترجمہ ہے اور اس میں کسر گرائی گئی ہے ورنہ رسول اللہﷺکا مقرر کردہ عام مہر پانچ صد درہم تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3352
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2086
´ولی کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2086]
فوائد ومسائل:
1: عورت ازخو اپنا نکاح نہیں کر سکتی۔
ولی کا ہونا صحت نکاح کے لئے لازمی شرط ہے ایسی تمام آیات واحادیث جن میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے وہ ان صحیح احادیث کی روشنی میں ولی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اس اہم فیصلے میں ان پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی رضامندی بلکہ بیوہ سے بالوضاحت مشورہ از بس ضروری ہے۔
2: ام حبیبہ رضی اللہ کا پہلا خاوند (عبیداللہ بن حجش) مسلمان ہو کر حبشہ ہجرت کر گیا تھا مگر وہاں جا کر مرتد ہو گیا اور نصرانی بن گیا تھا۔
ام حبیبہ رضی اللہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا اور اس نے ان کو ام المومنین کہہ کر مخاطب کیا اور کہتی ہیں کہ میں گھبرا سی گئی اور اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان شاء اللہ رسول اللہ ﷺمجھ سے نکاح کریں گے۔
چنانچہ جب میری عدت ختم ہوگی تو اچانک نجاشی کا پیغامبر دروازے پر آیا۔
دیکھا تو وہ اس کی خادمہ تھی جس کا نام ابرہہ تھا جو بادشاہ کے لباس اور عطریات کا اہتمام کرتی تھی۔
اس نے کہا کہ بادشاہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھا ہے کہ وہ تمہارا نکاح رسول ﷺسے کر دے۔
میں نے کہا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے، کہنے لگی کہ اپنا وکیل بنا دیں۔
چنانچہ میں نے خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا۔
سیرت یعمری میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ ان کے وکیل تھے۔
چنانچہ نجاشیؒ حق مہر ادا کیا اور چار سو مثقال سونا اور بعد ازاں ولیمہ بھی کھلایا۔
بعد ازاں حضرت شرجیل بن حسنہ کی معیت میں ان کو مدینے بھیج دیا گیا۔
(بذل المجهود) اس قصے میں نجاشی ؒ رسول اللہ ﷺکی طرف سے وکیل تھے اور خالد بن سعید یا عثمان رضی اللہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ کے ولی اور وکیل بنے۔
نجاشی ؒ جو سلطان وقت تھے ان کو بھی ولی سمجھا جا سکتا ہے۔
حضرت عثمان کا ذکر صحیح نہیں لگتا کیونکہ وہ اس وقت حبشہ میں نہ تھے بلکہ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد جلد ہی واپس آگئےتھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2086