سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
21. باب فِي الْعَضْلِ
باب: عورتوں کو نکاح سے روکنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2087
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، حَدَّثَنِي مَعْقِلُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ:" كَانَتْ لِي أُخْتٌ تُخْطَبُ إِلَيَّ، فَأَتَانِي ابْنُ عَمّ لِي فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، ثُمَّ طَلَّقَهَا طَلَاقًا لَهُ رَجْعَةٌ، ثُمَّ تَرَكَهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، فَلَمَّا خُطِبَتْ إِلَيَّ أَتَانِي يَخْطُبُهَا، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ لَا أُنْكِحُهَا أَبَدًا، قَالَ: فَفِيَّ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ سورة البقرة آية 232 الْآيَةَ، قَالَ: فَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ".
معقل بن یسار کہتے ہیں کہ میری ایک بہن تھی جس کے نکاح کا پیغام میرے پاس آیا، اتنے میں میرے چچا زاد بھائی آ گئے تو میں نے اس کا نکاح ان سے کر دیا، پھر انہوں نے اسے ایک طلاق رجعی دے دی اور اسے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو گئی، پھر جب اس کے لیے میرے پاس ایک اور نکاح کا پیغام آ گیا تو وہی پھر پیغام دینے آ گئے، میں نے کہا: اللہ کی قسم میں کبھی بھی ان سے اس کا نکاح نہیں کروں گا، تو میرے ہی متعلق یہ آیت نازل ہوئی: «وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن» ”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو“ (سورۃ البقرہ: ۲۳۲) راوی کا بیان ہے کہ میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دیا، اور ان سے اس کا نکاح کر دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التفسیر 40 (4529)، النکاح 60 (5130)، الطلاق 44 (5330، 5331)، سنن الترمذی/التفسیر 3 (2981)، (تحفة الأشراف: 11465)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ النکاح (11041) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4529)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2087 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2087
فوائد ومسائل:
1: اگر عورت شرع واخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے کہیں نکاح کا عندیہ دے تو اس کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
شرع واخلاق سے باہر نکلنا تو کسی بھی اسلامی معاشرے میں قبول نہیں ہو سکتا۔
نیز یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں حالانکہ آیت کریمہ کے ظاہر الفاظ میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ذکر ہوئی ہے۔
2: ہمارے معاشرے میں عورتیں بالعموم بعض اسباب کے تحت اپنی اس ضرورت (نکاح ثانی) کا اظہار نہیں کرتی ہیں اس لئے اولیاء کے ذمے ہے کہ ان کی اس فطری اور اخلاقی ضرورت کا احساس کریں، اس طرح عورت کو مادی ومعاشرتی تحفظ ملتا ہے اور ایک شرعی فریضہ ادا ہوتا ہے۔
تعجب ہے کہ اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بہت سے مسلمان نکاح ثانی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔
چاہیے کہ اس سنت کا احیاء ہو جیسے کہ سید احمد شہید اور اسمعیل شہید رضی اللہ نے کیا تھا۔
3: جب آدمی جذبات میں آکر کوئی غلط قسم اٹھالے تو کفارہ دے اور صحیح عمل اختیار کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2087