حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ وَتَزَوَّجَهَا كَانَ لَهُ أَجْرَانِ".
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2053
فوائد ومسائل:
اسلام نے انسانی حقوق کی پاسداری اور حفاظت کے لئے جو تعلیمات پیش فرمائی ہیں۔
دنیا کا کوئی مذہب اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔
اس لئے اسلام نے غلاموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔
اور ایسے طریقے بھی بتلائے جس سے غلامی کا خاتمہ یا کم از کم اس کی اصلاح ہوسکے۔
اس حدیث میں بھی غلامی کی رسم کی حوصلہ شکنی کے لئے ایک نہایت مفید عمل بتلا دیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2053
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 11
´دوہرے اجر کے حق دار خوش نصیب`
«. . . وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: \" ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمِهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ \" . . .»
”. . . سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں کے لیے دوگنا ثواب ہے: اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا، وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کرتا ہو اور اپنے مالک کا بھی حق ادا کرتا ہو، وہ شخص کہ اس کے پاس باندی (لونڈی) ہے جس سے ہم بستری کرتا رہا اور اسے ادب بھی سکھاتا رہا اور اچھا ادب سکھایا اور تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسی باندی کو آزاد کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیا تو اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 11]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 97]،
[صحيح مسلم 387]
فقہ الحدیث
➊ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ ان میں سے جو شخص بھی اپنے نبی پر سچا ایمان لائے، اپنے ایمان کو شرک و کفر سے آلودہ نہ کرے اور آخری نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی صدق دل سے ایمان لے آئے تو اللہ کے ہاں اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔
➋ شریعت اسلامیہ میں جو مردوں کے احکام ہیں، وہی عورتوں کے احکام ہیں الا یہ کہ تخصیص کی کوئی واضح اور مقبول دلیل موجود ہو، اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل کتاب کی اسلام قبول کرنے والی عورتیں بھی اسی حدیث کے حکم میں شامل ہیں۔
➌ اس حدیث کی تائید قرآن مجید کی آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ»
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، وہ اپنی رحمت سے تمہیں دوہرا اجر دے گا۔“ [سورة الحديد: 28]،
آیت: «أُولَـئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ»
”انہیں دو گنا اجر ملے گا۔“ [القصص: 54] بھی اس کی مؤید ہے۔
➍ خوبصورت آواز والے سیدنا ابوموسٰی عبد اللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے ہیں۔ آپ نے تریسٹھ 63 احادیث بیان کی ہیں۔ آپ تریسٹھ سال کی عمر میں 50 یا 52 ہجری کو مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح 54/1]، [ومرقاة المصابيح 152/1]
➎ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اپنے آقا کی اطاعت کرنے والا غلام بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے۔ اس حکم میں ہر وہ شخص شامل ہے، جو کتاب و سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سربراہ اور افسر کی اطاعت کرتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی شخص کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
➏ اس حدیث میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی زبردست فضیلت کا ذکر ہے، اور یاد رہے کہ سابق حدیث (صحیح مسلم 386) سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والا جہنم میں داخل ہو گا۔
➐ ”یعنی ان کی زندگی کے تمام عملوں کے اجر دوسرے لوگوں سے دو گنے ہوں گے۔ اگر دوسرے لوگوں کو دس گنا اجر ملے گا تو ان کو بیس گنا ملے گا۔ اگر ان کو سات سو گنا اجر ملے تو ان کو چودہ سو گنا ملے گا۔ پہلے آدمی کو اس لیے کہ اس نے دو شریعتوں پر عمل کیا، پہلی کے وقت بھی اس کی نیت یہ تھی کہ یہ حق ہے میں ہمیشہ اس پر قائم رہوں گا۔ بھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سامنے آ گئی تو اس پر ایمان لایا پھر اس پر عمل کرتا رہا اور آخر تک کیا۔ دوسرے کو اس لیے کہ اس نے دو مالکوں کی اطاعت کی، ایک حقیقی مالک (اللہ) کی اور دوسرے مجازی مالک کی اور تیسرے کو اس لیے دو گنا اجر ہے کہ لونڈی اسی کی تھی حقوق زوجیت اس کو پہلے بھی حاصل تھے۔ پھر اس نے لونڈی کو علم سکھایا تہذیب سے روشناس کرایا۔ پھر آزاد کر کے اس کی حیثیت عرفی میں بہت کچھ اضافہ کر دیا۔ پھر خود اس سے شادی کر کے اس کو اس گھر کی مالکہ بنا دیا جس گھر میں وہ صرف ایک خدمت گزار کی حیثیت رکھتی تھی۔“ [مشكوٰة مترجم ومحشي: شيخ محمد اسماعيل سلفي رحمه الله، ج 1، ص123 طبع مكتبه نعمانيه لاهور]
➑ اس حدیث اور دیگر دلائل شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔
➒ مشکٰوۃ میں مذکور الفاظ حدیث، امام بخاری کی کتاب الادب المفرد [203] کی روایت سے مشابہ ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صاحب مشکوۃ کا رواہ البخاری یا رواہ مسلم وغیرہ کہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ ہو بہو یہ الفاظ اسی کتاب میں ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ روایت اپنے مفہوم کے ساتھ کتاب مذکور میں بایں الفاظ یا بہ اختلاف الفاظ موجود ہے۔
➓ اس حدیث سے تعلیم نسواں کا ثبوت ملتا ہے، عورتوں کو تعلیم دینا (اور لکھنا پڑھنا سکھانا) دوسرے دلائل سے بھی ثابت ہے بشرطیکہ
① یہ تعلیم کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو
② مردوں کے ساتھ عورتوں کو بٹھا کر مخلوط تعلیم نہ ہو۔
جس حدیث میں عورتوں کو لکھائی سیکھنے سے منع کیا گیا ہے وہ جعفر بن نصر العنبری (کذاب) کی وجہ سے موضوع ہے۔ دیکھیے: [الكامل لابن عدي طبعة محققة 2؍395]، [والموضوعات لابن الجوزي 268/2]
[كتاب المجروحين لابن حبان 302/2]، [و شعب الايمان للبيهقي 477/2 ح 2454]، [والموضوعات لابن الجوزي 269/2] میں اس کی ایک دوسری سند ہے جو محمد بن ابراھیم الشامی (کذاب) کی وجہ سے موضوع ہے۔ شعب الایمان [2453] میں عبدالوھاب بن الضحاک (کذاب) نے محمد بن ابراھیم الشامی کی متابعت کر رکھی ہے، اس کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں: «بل موضوع، وآفته عبدالوهاب، قال أبو حاتم: كذاب» [تلخيص المستدرك 396/2 ح 3494]
یہ موضوع روایات اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے، جس میں آیا ہے کہ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا بیان کر تی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: «الا تعلمين هذه رقية النملة كما علمتيها الكتابة» ”کیا تو اسے پھوڑے پھنسی کا دم نہیں سکھاتی جیسا کہ تو نے اسے (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا کو) لکھنا (پڑھنا) سکھایا ہے۔“ [ابوداؤد: 3887، و أحمد 372/6ح27095، والطحاوي فى معاني الآثار 326/4، وهو حديث صحيح /تلخيص نيل المقصود 777/4]
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا لکھنا پڑھنا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے۔ «والحمد لله»
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 11
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 97
´علم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہو تو ایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہو گا`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور (دوسرے) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ (دونوں) کا حق ادا کرے اور (تیسرے) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 97]
� تشریح:
حدیث سے باب کی مطابقت کے لیے لونڈی کا ذکر صریح موجود ہے اور بیوی کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تادیب یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ اگر علم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہو تو ایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلاف امت ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اور بے حد مشقتیں اٹھایا کرتے تھے۔ شارحین بخاری کہتے ہیں: «وانما قال هذا ليكون ذلك الحديث عنده بمنزلة عظيمة ويحفظه باهتمام بليغ فان من عادة الانسان ان الشيئي الذى يحصله من غيرمشقة لايعرف قدره ولايهتم بحفاظته» یعنی عامر نے اپنے شاگرد صالح سے یہ اس لیے کہا کہ وہ حدیث کی قدر و منزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ یاد رکھیں کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ بغیر مشقت حاصل ہونے والی چیز کی وہ قدر نہیں کرتا اور نہ پورے طور پر اس کی حفاظت کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 97
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2544
2544. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسکے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا ثواب ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2544]
حدیث حاشیہ:
الحمد للہ کہ حرم کعبہ مکۃ المکرمہ میں یکم محرم 1390ھ سے اس پارے کے متن کا لفظ لفظ پڑھنا، پھر ترجمہ لکھنا شروع کیا تھا، ساتھ ہی رب کعبہ سے دعائیں بھی کرتا رہا کہ وہ اس عظیم خدمت کے لیے صحیح فہم عطا کرے۔
آج 11 محرم90ھ کو بعونه تعالیٰ اس حدیث تک پہنچ گیا ہوں۔
پارہ9, 10 کے متن کو کعبہ شریف و مدینۃ المنورہ میں بیٹھ کر پڑھنے کی نذر بھی مانی تھی۔
اللہ کا بے حد شکر ہے کہ یہاں تک کامیابی ہورہی ہے۔
اللہ پاک سے دعاءہے کہ وہ بقایا کو بھی پورا کرائے اور قلم میں طاقت اور دماغ میں قوت عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2544
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2547
2547. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس مرد کے پاس لونڈی ہو، وہ اسے ادب سکھائے اور اچھی تعلیم دے، پھراسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ اور جوغلام اللہ تعالیٰ کاحق اوراپنے آقاؤں کا حق ادا کرے اسے بھی دوہرا ثواب ملے گا۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2547]
حدیث حاشیہ:
اسلامی شریعت میں عورت مرد سب کو تعلیم دینا چاہئے یہاں تک کہ لونڈی غلاموں کو بھی علم حاصل کرانا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔
مگر علم وہ جس سے شرافت اور انسانیت پیدا ہو، نہ آج کے علوم مروجہ جو انسان نما حیوانوں میں اضافہ کراتے ہیں۔
العلوم قال اللہ قال رسوله قال الصحابة هم أولوا العرفان یعنی حقیقی علم وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پھر آپ کے صحابہ نے پیش فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2547
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3011
3011. حضرت ابو بردہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ) سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جنھیں دوگنا ثواب ملے گا: پہلا وہ شخص جس کی کوئی لونڈی ہو، وہ اسے زیور تعلیم سے آراستہ کرے اور آداب فاضلہ سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ دوسرا اہل کتاب سے مومن شخص جو پہلی کتاب پر ایمان لایا، پھر نبی کریم ﷺ پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دوہرا اجر ملے گا۔ تیسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کاحق اداکرے اور اپنے آقا کا بھی مخلص ہو، اسے بھی دوہرا اجر ملے گا۔“ (راوی حدیث) امام شعبی ؒنے(اپنی شاگرد سے) فرمایا: میں نے یہ حدیث تمھیں بلامعاوضہ بتادی ہے، حالانکہ اس سے چھوٹی بات سننے کے لیے لوگ مدینہ طیبہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3011]
حدیث حاشیہ:
مقصد امام بخاریؒ کا یہ ہے کہ جنگ سے قبل یہود و نصاریٰ کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ان کو یہ بشارت بھی پیش کی جائے کہ وہ اسلام قبول کرلیں گے تو ان کو دوگنا ثواب ملے گا۔
یعنی پہلے نبی پر ایمان لانا اور پھر اسلام قبول کرلینا‘ یہ دوگنے ثواب کا موجب ہوگا۔
بہرصورت لڑائی نہ ہو تو بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3011
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3446
3446. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنی لونڈی کی اچھی تربیت کرے اور اسے اچھے طریقے سے تعلیم دے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔ اور جوشخص حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لایا، پھر مجھے تسلیم کیا تو اسے بھی دوگنا ثواب ملے گا۔ اور بندہ جب اپنے رب سے ڈرتا ہے اوراپنے آقاؤں کی بھی خدمت گزاری کرتاہے تو اسے بھی دوگنا ثواب ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3446]
حدیث حاشیہ:
خراسان کےنامعلوم شخص نےشعبی سےکہاکہ ہم لوگ یوں کہتے ہیں کہ اگر آدمی ام ولد کوآزاد کرکے پھر اس سے نکاح کرےتو ایسا ہےجیسے اپنی قربانی کےجانور پرسوار ہوا، توامام شعبی نے یہ بیان کیا جو آگے مذکورہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3446
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3346
´لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر و ثواب ملے گا ۱؎، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی تھی اس نے اسے ادب و تمیز سکھائی اور بہترین طور و طریقہ بتایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کر دیا، اور اس سے شادی کر لی۔ دوسرا وہ غلام جو اپنے آقاؤں کا صحیح صحیح حق الخدمت ادا کرے، اور تیسرا وہ جو اہل کتاب میں سے ہو اور ایمان لے آئے“ (ایسے لوگوں کو دوگنا ثواب ملے [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3346]
اردو حاشہ:
(1) ”دگنا اجر“ کیونکہ انہوں نے دگنی نیکی کی۔ آزادی بھی نکاح بھی۔ اللہ کا حق بھی لوگوں کا حق بھی۔ پہلے نبی پر ایمان اور آخری نبی پر بھی ایمان۔ یا ہر ہر کام پر دگنا اجر‘ مثلا: آزاد کرنے کا ثواب۔ اگرچہ نکاح اپنے مفاد کے لیے کیا۔ اسی طرح غلام کو عبادت کا دگنا ثواب ورنہ مالکوں کی خدمت تو اس کا ذاتی فریضہ تھا۔ اسی طرح آخری نبیﷺ پر ایمان لانے کا دگنا ثواب۔ پہلی شریعت تو ویسے ہی منسوخ ہوچکی۔
(2) ”نکاح کرے“ یعنی اس کی رضا مندی سے‘ پھر اسے مہر دے یا آزادی کو مہر قراردینے ہی پر اتفاق ہوجائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3346
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3347
´لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کر لی، اسے دوہرا اجر ملے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3347]
اردو حاشہ:
کیونکہ آزادی کے بعد نکاح کرنا بھی احسان پر احسان ہے‘ نیز یہ صدقئہ زوجین بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3347
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1956
´آدمی لونڈی کو آزاد کرے پھر اس سے شادی کر لے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے“ ۱؎۔ شعبی نے صالح سے کہا: ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنا دی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہو کر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1956]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
”دو ثواب“ ہونے کا مطلب دوگنا ثواب ہے کیونکہ عمل کرنے والے نے دو طرح کی نیکی کی ہے لہٰذا اس کی نیکی دوسروں کی نیکی سے زیادہ اہمیت و فضیلت رکھتی ہے۔
(2)
لونڈی غلام خدمت لینے کے لیے خریدے جاتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ان پر ایک عظیم احسان ہے پھر لونڈی کو آزاد کر دینا ایک اور احسان ہے اس کے بعد اس سے نکاح کر لینے کو اس نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ گویا آزادی کی نفی ہے بلکہ یہ احسان کی تکمیل ہے کہ لونڈی کو آزاد بیوی والے پورے حقوق حاصل ہو گئے۔
(3)
اگر ایک یہودی توحید پر قائم رہتے ہوئے حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتا ہے یا عیسائی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو جب تک اسے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا علم نہیں ہوتا، اس کا ایمان صحیح ہے، پھر جب اسے نبیﷺ کی بعثت کا علم ہوتا ہے اور وہ آپ پرایمان لے آتا ہے اس طرح اس نے دو نیکیاں کی ہیں جیسے حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے۔
(4)
لونڈی غلام اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے انہیں وہ نیکیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا جو آزاد مسلمان کر سکتا ہے اس کے باوجود اگر وہ نماز روزہ کی پابندی کرتے ہیں اور شریعت کے جو احکام ایک لونڈی غلام پر عائد ہوتے ہیں وہ ان کی تکمیل کرتے ہیں تو ان کی زندگی واقعی ایک امتیازی شان رکھتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
(5)
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بغیر مشقت کے علم حاصل ہو رہا ہے۔
استاد کو چاہیے کہ شاگردوں کو علم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائے تاکہ وہ شوق سے علم حاصل کریں اور اسے پوری اہمیت دیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1956
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:786
786-صالح بن حیی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: ایک شخص امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا، میں اس وقت ان کے پاس موجود تھا۔ وہ بولا: اے ابوعمرو! خراسان میں ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں، جو اس بات کے قائل ہیں، اگر کوئی شخص اپنی کنیز کو آزاد کرنے کے بعد پھر اس سے شادی کرلے، تو وہ اپنے قربانی کے جانور پر سوار ہونے والے شخص کی مانند ہے، تو امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: سیدنا ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کیا ہے۔ ”تین لوگوں کو دگنا اجر ملے گا۔ اہل کتاب سے تعلق رکھنے والا وہ شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:786]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اعمال کی درجہ بندی ہے۔ مختلف اعمال کا مختلف اجر ہے، سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ کا تمام نظام عدل کے ساتھ ہے۔
پہلاشخص: ایک وہ شخص جو یہودیوں یا عیسائیوں میں سے ہے، وہ اپنے اس نبی پر بھی ایمان لایا جو اس کی طرف پہلے بھیجے گئے تھے اور وہ موسٰی یا عیسی علیہ السلام ہیں اور ایسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے پہنچنے سے پہلے ہے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچی تو وہ اس پر بھی ایمان لے آیا، تو۔ اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے، ایک تو اس کے اپنے اس رسول پر ایمان لانے کا اجر ہے جسے اللہ نے اس کی طرف پہلے بھیجا تھا اور دوسرا اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اجر۔
دوسرا شخص: مملوک غلام جب اللہ کی عبادت کرے اور اس کا آقا اسے جن کاموں کی ذمہ داری سونپتا ہے ان سے بھی وہ اچھے انداز میں عہدہ برآ ہو، تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے۔
تیسرا شخص: وہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھے طریقے سے پرورش کرے اور اسے حلال و حرام پر مشتمل دینی امور سکھائے اور پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔
پہلا اجر: اسے علم سکھانے اور اسے آزاد کرنے پر۔
دوسرا اجر: اسے آزاد کر نے کے بعد اس کے ساتھ احسان و بھلائی کرنے پر۔ کیونکہ اسے آزاد کر نے کے بعد اسے ضائع نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ شادی کر لی اور اس کی عزت و ایمان کا محافظ بنا۔
قرآن کریم میں اس حدیث کے مؤید آیات بھی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ﴾
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ وہ اپنی رحمت سے تمھیں دوہرا اجر دے گا۔“ (الحدید 28) نیز دیکھیں (القصص 54)
نیز اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خواتین بھی دینی علوم سیکھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
«الا تـعـلمين هذه رقية النملة كما علمتيها الكتابة»
”کیا تو اسے (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا کو) پھوڑے پھنسی کا دم نہیں سکھاتی حیسا کہ تو نے اسے لکھنا پڑھنا سکھایا ہے“۔ [سنن ابي داود 8788 صحيح]
جس روایت میں خواتین کو لکھائی سکھانے سے منع کیا گیا ہے۔ وہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کی سند میں جعفر بن نصر العنبر ی کذاب ہے۔ [الكامل لابن عدي: 395/2]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 786
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 387
صالح ہمدانیؒ بیان کرتے ہیں: کہ میں نے ایک خراسانی کو دیکھا اس نے شعبی ؒ سے سوال کیا: اے ابو عمرو! ہماری طرف اہلِ خراساں یہ کہتے ہیں: کہ ایک انسان اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اگر اس سے شادی کر لے، تو وہ اس حاجی کی طرح ہے جو اپنی قربانی کے اونٹ پر سوار ہو جاتا ہے۔ تو شعبیؒ نے جواب دیا: مجھے ابو بردہ بن ابی موسیٰ ؒ نے اپنے باپؓ سےروایت سنائی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین آدمیوں کو دہرا اجر دیا جائے گا، ایک اہلِ کتاب کا فرد، جو اپنے نبی پر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:387]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اہل کتاب کو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی صورت میں دو اجر ملیں گے،
کیونکہ جب وہ ایک رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور وہ اس کوباعث نجات سمجھتے ہیں،
تو اب ان کا آپ پر ایمان لانا بڑے مجاہدہ کا کام ہے۔
کوئی انسان ایک پیر کے بعد دوسرے کو پیر بنانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا،
تو ایک نبی کے بعد دوسرے کو نبی ماننا کتنا سخت اور مشکل مرحلہ ہوگا،
اور یہی محنت ومجاہدہ اجر میں زیادتی کا باعث ہے،
اس لیے قرآن مجید میں ہے:
﴿أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ (القصص: 54)
”ان کو ان کے صبر وتحمل کی بنا پر دوہرا اجرملے گا۔
“ اس طرح غلام جو اپنے آقا کے حقوق پوری طرح ادا کرتا ہے،
اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حقوق آزاد کے مقابلہ میں ادا کرنا بہت مشکل اور مشقت طلب کام ہے،
لیکن وہ اس رکاوٹ اور مانع کو عبور کرتا ہے جو بہت دشوار اور محنت طلب ہے،
اس لیے اس کو بھی دوہرا اجرملے گا۔
اصول ہے:
(اَلْعَطَایَا عَلی مَتْنِ الْبَلَایَا)
”عطیات بقدد تکلیف ملتے ہیں۔
“ اور (أَجْرُکُمْ عَلَی قَدْرِ نَصَبِکُمْ)
”تمہارے اجر تمہاری محنت کی مقدار کے مطابق ہوں گے۔
“ تیسرا شخص جو اپنی لونڈی پر احسان کرتا ہے،
اس کو اچھا کھانا کھلاتا ہے،
اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتا ہے،
پھر اپنی لونڈی کو جس سے وہ جس طرح چاہے کام لے سکتا تھا،
اور اس سے استمتاع بھی کر سکتا تھا،
اس کو آزاد کرکے اپنے برابر کی سطح پر لاتا ہے۔
یہ بھی جگر گردہ کا کام ہے،
اور بہت بڑا احسان ہے،
اس لیے اس کو بھی اس نکاح پر دو گنا صلہ ملے گا۔
(2)
قربانی کے اونٹ سے فائدہ اٹھانا جائز ہے،
جیسا کہ حج کے مسائل میں آئے گا،
اس لیے اس سے تشبیہ ہی محل نظر ہے جو اس حکم پر مبنی ہے کہ قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا درست نہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 387
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3499
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرتا ہے فرمایا: ”اس کے لیے دو اجر ہیں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3499]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کی تشریح کتاب الایمان حدیث نمبر154کے تحت گزر چکی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:97
97. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جنہیں دوگنا ثواب ملے گا: ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے اپنے نبی پر اور پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا، اور دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا اور اپنے مالکان کا حق ادا کرتا رہا، اور (تیسرا) وہ شخص جس کے پاس اس کی لونڈی ہو، پھر وہ اسے اچھی طرح تعلیم و ادب سے آراستہ کر کے آزاد کر دے، بعد ازاں اس سے نکاح کر لے، تو اسے دوہرا ثواب ملے گا۔ پھر عامر نے کہا: یہ حدیث ہم نے تمہیں کسی چیز کے بغیر ہی دے دی ہے ورنہ اس سے کم تر مسئلے کے لیے مدینے تک کا سفر کیا جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:97]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم انتہائی ضروری ہے۔
پھر یہ مردوں ہی کے لیے خاص نہیں بلکہ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔
پھر عورتوں میں سے باندیوں کو بھی اس کا ضروری حصہ ملنا چاہیے۔
حدیث میں چونکہ لونڈی کا ذکر ہے اس لیے عنوان میں لونڈی کو مقدم کیا۔
اس سے اہل کی تعلیم بایں طور ثابت ہوئی کہ جب لونڈی کی تعلیم ضروری ہے تو آزاد اور دیگر اہل وعیال کی تعلیم تو بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگی۔
حدیث میں تعلیم کے ساتھ تادیب کا بھی ذکر ہے یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر علم کے ساتھ تربیت نہ ہوتو ایسے علم سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مستدل حدیث میں مذکورتیسرا شخص ہے جو لونڈی کا مالک ہونے کی حیثیت سے ہر قسم کی خدمت لیتا ہے حتیٰ کہ اپنی جنسی خواہشات کی تسکین بھی کر سکتا ہے اس کے باوجود وہ اللہ سے اجر لینے کے لیے اس کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتا ہے اور وہ سلیقہ شعار اور معاملہ فہم لونڈی بن جاتی ہے۔
پھر اسے آزاد کردیتا ہے پھر اس پر بس نہیں بلکہ کسی مطالبے کے بغیر اپنے برابر قرار دے کر اس سے نکاح کر لیتا ہے الغرض یہ تعلیم دین کے ثمرات و فوائد ہیں۔
2۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے اسلاف ایک ایک حدیث کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اور بے پناہ مشقتیں اٹھایا کرتے تھے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس گوہر نایاب کی قدر و منزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ حرز جان بنائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 97
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2544
2544. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جسکے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا ثواب ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2544]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو شخص اہل ثروت سے نکاح کرنے کی طاقت کے باوجود تواضع اور انکساری کرتے ہوئے کسی آزاد کردہ لونڈی سے نکاح کرے تو اسے اللہ کے ہاں بہت اجروثواب ملتا ہے۔
(2)
زیر کفالت بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف انسان کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ان کے نکاح اور تعلیم کا بندوبست کرنے سے اللہ تعالیٰ دوگنا اجروثواب دیتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2544
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2547
2547. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس مرد کے پاس لونڈی ہو، وہ اسے ادب سکھائے اور اچھی تعلیم دے، پھراسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ اور جوغلام اللہ تعالیٰ کاحق اوراپنے آقاؤں کا حق ادا کرے اسے بھی دوہرا ثواب ملے گا۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2547]
حدیث حاشیہ:
1۔
ادب کے معنی ہیں:
حسن اخلاق کی تعلیم دینا۔
اچھی تعلیم سے مراد مارکٹائی اور ڈانٹ ڈپٹ کے بغیر نرمی اور خوش اسلوبی سے تعلیم دینا ہے۔
2۔
واضح رہے کہ اسلامی شریعت کی رو سے عورت مرد سب کو تعلیم دینی چاہیے، یہاں تک کہ لونڈی غلام کو بھی زیور تعلیم سے آرستہ کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن ایسی تعلیم جس سے شرافت اور انسانیت پیدا ہو۔
دورِ حاضر میں مروجہ علوم تو انسان کو حیوان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
حقیقی علم وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے پیش کیا، پھر صحابۂ کرامؓ نے اپنے عمل وکردار سے اس کی تشریح کی۔
ایسا علم ہر انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2547
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3011
3011. حضرت ابو بردہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ) سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جنھیں دوگنا ثواب ملے گا: پہلا وہ شخص جس کی کوئی لونڈی ہو، وہ اسے زیور تعلیم سے آراستہ کرے اور آداب فاضلہ سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ دوسرا اہل کتاب سے مومن شخص جو پہلی کتاب پر ایمان لایا، پھر نبی کریم ﷺ پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دوہرا اجر ملے گا۔ تیسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کاحق اداکرے اور اپنے آقا کا بھی مخلص ہو، اسے بھی دوہرا اجر ملے گا۔“ (راوی حدیث) امام شعبی ؒنے(اپنی شاگرد سے) فرمایا: میں نے یہ حدیث تمھیں بلامعاوضہ بتادی ہے، حالانکہ اس سے چھوٹی بات سننے کے لیے لوگ مدینہ طیبہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3011]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جنگ وقتال سے پہلے اہل کتاب،یعنی یہود ونصاریٰ کو اسلام کی دعوت دی جائے اور انھیں یہ خوشخبری سنائی جائے کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں گے تو انھیں دوگنا ثواب ملے گا:
ایک اجر تو پہلی کتاب پر ایمان لانے کا اور دوسرا اسلام قبول کرنے کا۔
بہرحال اسلام لڑائی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ صلح وآتشی کا درس دیتا ہے۔
2۔
اس حدیث میں لفظ کتاب مفہوم کے اعتبار سے اگرچہ تورات وانجیل سے عام ہے لیکن شریعت نے اسے تورات وانجیل کے ساتھ خاص کیا ہے کیونکہ زمانہ بعثت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی اہل کتاب نہیں پایا جاتاتھا۔
3۔
حدیث کے آخر میں امام عامرشعبی ؒنے اہمیت حدیث کو اجاگر کیا ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ لوگ ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے کئی میل سفر کرکے مدینہ طیبہ جاتے تھے اور مسائل پوچھتے تھے لیکن اب تمھیں کس قسم کی تکلیف اٹھائے بغیر یہ احادیث معلوم ہورہی ہیں،اس بنا پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3011
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3446
3446. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنی لونڈی کی اچھی تربیت کرے اور اسے اچھے طریقے سے تعلیم دے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔ اور جوشخص حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لایا، پھر مجھے تسلیم کیا تو اسے بھی دوگنا ثواب ملے گا۔ اور بندہ جب اپنے رب سے ڈرتا ہے اوراپنے آقاؤں کی بھی خدمت گزاری کرتاہے تو اسے بھی دوگنا ثواب ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3446]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ اہل کتاب میں سے جو آدمی اپنے نبی پر ایمان لایاہو، پھر اس نے مجھے تسلیم کیا تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 97)
اس حدیث میں لفظ کتاب اگرچہ عام ہے لیکن اس کے خاص معنی، یعنی انجیل مراد ہے کیونکہ نصرانیت، یہودیت کے لیے ناسخ ہے، اس لیے یہودی مومن کا ایمان حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت کے بعد معتبر نہیں ہوگا بشرط یہ کہ اسے حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت پہنچ چکی ہو۔
چونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت تمام لوگوں کے لیے نہ تھی بلکہ وہ صرف بنی اسرائیل کے آخر نبی تھے۔
اس لیے یہود مدینہ جنھیں ان کی دعوت نہ پہنچی ہوتو اب اگروہ اپنے نبی حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تو انھیں بھی دوہرا اجر ملے گا بصورت دیگر وہ اس فضیلت کے حقدار نہیں ہوں گے۔
2۔
خراسان کے ایک شخص نے حضرت شعبی ؒ سے کہا:
اگرکوئی آدمی ام ولد کوآزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو ایسا ہے جیسا وہ اپنے قربانی کے جانور پر سوار ہواتو امام شعبی نے اسے یہ حدیث سمائی۔
(فتح الباري: 599/6)
حدیث سنانے کے بعد امام شعبی ؒنے فرمایا:
ہم نے تجھے یہ حدیث مفت میں سنادی ہے لوگ تو اس سے کمتر علم کے لیے مدینہ طیبہ کا سفر کرتے تھے، تجھے سفر کے بغیر ہی یہ تحفہ مل گیا ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 97)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3446
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5083
5083. سیدنا ابو بردہ ؓ اپنے والد گرامی (سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ) سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرے، پھر اسے اچھے آداب سکھائے تو اس کے لیے دو گناہ اجر ہے۔ اور جو کوئی اہل کتاب سے اپنے نبیی پر ایمان لائے تو اس کے لیے بھی دو گنا اجر ہے۔ اور جو غلام اپنے آقاؤں کا حق ادا کرے اور اپنے رب کا بھی حق ادا کرے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔“ شعبی نے کہا: ٰیہ حدیث کسی معاوضے کے بغیر لے جاؤ، جبکہ پہلے اس سے کم مسائل (معلوم کرنے) کے لیے آدمی کو مدینہ منورہ کا سفر کرنا پڑتا تھا ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص نے لوںڈی کو آزاد کر دیا اور اسے حق مہر بھی ادا کیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5083]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ذکر کردہ اشخاص کے علاوہ درج ذیل حضرات کو دوگنا اجر ملے گا:
٭ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم۔
٭ وہ شخص جو مشقت اور تکلیف کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔
٭ جو اپنے قرابت داروں کو صدقہ دیتا ہے۔
٭ جو حاکم اپنے اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے۔
٭جو کسی دوسرے کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔
٭ جس نے تیمّم سے نماز پرھی، پھر پانی دستیاب ہونے پر کر کے دوبارہ نماز پڑھی۔
(2)
کچھ اہل علم لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرنے کو مکروہ خیال کرتے ہیں، چنانچہ ایک خراسانی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا:
ہمارے ہاں اہل خراسان کہتے ہیں جو آدمی لونڈی آزاد کر کے اسے سے نکاح کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح ہو جو قربانی کے اونٹ پر سواری کر لیتا ہے۔
اس کی تردید میں امام شعبی رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی۔
حضرت سعید بن مسیّب اور ابراہیم نخعی سے اس کی کراہت منقول ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنا دوگنے اجر کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 159/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5083