Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
98. باب فِي تَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ
باب: مدینہ کے حرم ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2034
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا كَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ۱؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک (عائر اور ثور دو پہاڑ ہیں)، جو شخص مدینہ میں کوئی بدعت (نئی بات) نکالے، یا نئی بات نکالنے والے کو پناہ اور ٹھکانا دے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل، مسلمانوں کا ذمہ (عہد) ایک ہے (مسلمان سب ایک ہیں اگر کوئی کسی کو امان دیدے تو وہ سب کی طرف سے ہو گی) اس (کو نبھانے) کی ادنی سے ادنی شخص بھی کوشش کرے گا، لہٰذا جو کسی مسلمان کی دی ہوئی امان کو توڑے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ نفل، اور جو اپنے مولی کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے ولاء کرے ۲؎ اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ نفل۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العلم 39 (111)، وفضائل المدینة 1 (1867)، والجھاد 171 (3047)، والجزیة 10 (3172، 3179)، والفرائض 21 (6755)، والدیات 24 (6903)، والاعتصام 5 (7300)، صحیح مسلم/الحج 85 (1370)، سنن الترمذی/الدیات 16 (1412)، والولاء والھبة 3 (2127)، سنن النسائی/القسامة 9، 10 (4749)، (تحفة الأشراف: 10317)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2658)، مسند احمد (1/81، 122، 126، 151، 2/398)، سنن الدارمی/الدیات 5 (2401) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ صحیفہ ایک ورق تھا جس میں دیت کے احکام تھے،علی رضی اللہ عنہ اسے اپنی تلوار کی نیام میں رکھتے تھے۔
۲؎: یعنی کوئی اپنی آزادی کی نسبت کسی دوسرے کی طرف نہ کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1870) صحيح مسلم (1370)

وضاحت: ۱؎: یہ صحیفہ ایک ورق تھا جس میں دیت کے احکام تھے،علی رضی اللہ عنہ اسے اپنی تلوار کی نیام میں رکھتے تھے۔
۲؎: یعنی کوئی اپنی آزادی کی نسبت کسی دوسرے کی طرف نہ کرے۔
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2034 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2034  
فوائد ومسائل:
1- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی خاص باطنی علم یا وصیت نہ تھی۔
جو دیگر لوگوں سے مخفی آپ کو دی گئی ہو آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ نے اس کا اظہار فرما دیا۔


مدینہ منورہ مذکورہ حدود میں اسی طرح حرم اور محترم ہے۔
جیسے کہ مکہ مکرمہ ہے۔
اور بدعت ہر اعتبار سے ضلالت ہے۔
اور بدعتی انسان کا اکرام بہت بڑا شرعی ظلم ہے۔
مدینہ منورہ میں اس عمل کی شناخت از حد زیادہ ہے۔
کیونکہ یہ دین اسلام کا منبع اور مرکز ہے۔


کفار کے مقابلے میں مسلمان ایک ہیں۔
ان کےادنیٰ فرد کی بھی وہی حیثیت ہے۔
جو ان کے اعلیٰ کی ہے۔


آذاد شدہ غلام (مولیٰ) اجازت لے کر بھی اپنی نسبت ولاء فروخت یا تبدیل نہیں کرسکتا۔
یہ عمل حرام ہے۔
حدیث میںز(بغير إذن مواليه) کا ذکر قید اتفاقی ہے۔
احترازی نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2034   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2127  
´آزاد کرنے والے کے علاوہ دوسرے کو مالک بنانے اور دوسرے کے باپ کی طرف نسبت کرنے والے کا بیان​۔`
یزید بن شریک تیمی کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات (زخموں) کے احکام ہیں - کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے ۱؎ علی رضی الله عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2127]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علی رضی اللہ عنہ کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طورپر تردید ہورہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین وشریعت کے اسرار و رموز سے ہے،
کیوں کہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ما عندنا شئ إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي ﷺ)

2؎:
عیر اور ثور دوپہاڑہیں:
ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔
جب کہ عیرذوالحلیفہ (ابیارعلی) کے پاس ہے،
اور یہ دونوں پہاڑمدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں،
اورمدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دومیدان ہیں،
مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کرکے مدینہ منورہ کے حرم کی حد بندی محراب نما بُرجیوں کے ذریعے کردی ہے،
 جزاهم الله خيراً۔

3؎:
یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3327  
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا، جس کا یہ گمان ہے کہ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ (ان کی تلوار کی نیام کے ساتھ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا) کے سوا کچھ ہے وہ جھوٹ بولتا ہے، اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں (کی دیت) کا ذکر ہے، اور اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ، عَیر سے لے کر ثَور تک حرم ہے، تو جس نے اس میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3327]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ہی بعض لوگوں نے یہ بات پھیلا رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ کچھ اور علوم بھی ہیں جو صرف آپ کو ہی بتائے گئے ہیں،
اس لیے آپ سے اس کے بارے میں مختلف مواقع پر سوال کیا گیا اور آپ نے بھی مختلف مواقع اور مختلف مناسبتوں سے اس کی تردید اور تکذیب فرمائی،
لیکن اس تصریح کے باوجود بھی بعض لوگوں کا اب بھی یہی دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ قرآن میں بھی کمی کر دی گئی ہے،
جبکہ وہ فرما رہے ہیں ہم بھی وہ کتاب اللہ پڑھتے ہیں جو سب کے پاس ہے،
ہمارے پاس اس سے زائد نہیں ہے اور ان کے صحیفہ کی اشیاء بھی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہیں۔

حدیث سے مراد،
جرم یا بدعت ہے اور محدث سے مراد مجرم یا بدعتی ہے۔
جس طرح جرم اور بدعت پرسخت وعید ہے،
اسی طرح بدعتی اور مجرم کو تحفظ اور پناہ دینا بھی شدید جرم ہے،
جس کی بنا پر انسان،
اللہ،
فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اور جمہور کے نزدیک صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے نفل،
اللہ کی لعنت سے مراد،
اس کی رحمت سے محرومی ہے اور فرشتوں کی لعنت سےمراد،
اس دعا اور استغفار سے محرومی ہے جو وہ مومنوں کے لیے کرتے ہیں۔
جس کی تفصیل سورہ مومن کی آیات 7تا9 میں ہے۔
اور لوگوں کی لعنت سے مراد،
اس کے لیے رحمت سے محرومی کی بد دعا کرنا ہے۔

مسلمانوں کا امان اور پناہ دینا یکساں اور برابر حیثیت رکھتا ہے کوئی بھی مسلمان کسی بھی کافر کو اگر امان اور تحفظ دے دے تو سب مسلمان اس کے پابند ہوں گے،
جمہور کا یہی قول ہے۔

کسی مسلمان کا اپنے نسب کو چھوڑ کر کسی اورخاندان کی طرف نسبت کرنا یا غلام کا اپنے آزاد کرنے والوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنا بھی انتہائی شدید جرم ہے۔

عَیر اور ثَور جنوب شمال مدینہ میں دو پہاڑ ہیں۔
تفصیل کے لیے (دیکھئے فواد عبدالباق کا حاشیہ مسلم ج2 ص 995تا997)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3327   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3794  
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا جس میں کہا، جس شخص کا گمان یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس نوشتہ (صحیفہ) کے سوا کوئی اور پڑھنے کی چیز ہے، تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور نوشتہ ان کی تلوار کے میان کے ساتھ لٹک رہا تھا، اس میں اونٹوں کی عمروں کا ذکر ہے، اور زخموں کے بارے میں کچھ چیزیں ہیں، اور اس میں یہ بھی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ، عیر سے لے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3794]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کی توضیح حدیث نمبر1370کے تحت کتاب الحج میں گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3794