سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
90. باب تَحْرِيمِ حَرَمِ مَكَّةَ
باب: حرم مکہ کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2017
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تَحِلُّ لُقْطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ". فَقَالَ عَبَّاسٌ: أَوْ قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَّا الْإِذْخِرَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَزَادَنَا فِيهِ ابْنُ الْمُصَفَّى، عَنْ الْوَلِيدِ، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اكْتُبُوا لِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ". قُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ؟ قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةُ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا، تو آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”اللہ نے ہی مکہ سے ہاتھیوں کو روکا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنین کا اقتدار قائم کیا، میرے لیے دن کی صرف ایک گھڑی حلال کی گئی اور پھر اب قیامت تک کے لیے حرام کر دی گئی، نہ وہاں (مکہ) کا درخت کاٹا جائے، نہ اس کا شکار بدکایا جائے، اور نہ وہاں کا لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کسی کے لیے حلال ہے، بجز اس کے جو اس کی تشہیر کرے“، اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ۱؎ (یعنی اس کا کاٹنا درست ہونا چاہیئے) اس لیے کہ وہ ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے اذخر کے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مصفٰی نے ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے: تو اہل یمن کے ایک شخص ابوشاہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے لکھ کر دے دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کو لکھ کر دے دو“، (ولید کہتے ہیں) میں نے اوزاعی سے پوچھا: «اكتبوا لأبي شاه» سے کیا مراد ہے، وہ بولے: یہی خطبہ ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللقطة 7 (2434)، صحیح مسلم/الحج 82 (1355)، سنن الترمذی/الدیات 13 (1405)، سنن النسائی/القسامة 24 (4789، 4790، 4791)، سنن ابن ماجہ/الدیات 3 (2624)، (تحفة الأشراف: 15383)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/238)، سنن الدارمی/البیوع 60 (2642)، ویأتی ہذا الحدیث فی العلم (3649، 3650) وفی الدیات (4505) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ ایک خوشبو دار گھاس ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2434) صحيح مسلم (1355)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2017 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2017
فوائد ومسائل:
1- مکہ مکرمہ کو قوت اور زور سے فتح کیا گیا تھا۔
2۔
حرم میں پناہ لینے والا جب تک حرم میں ہے۔
اسے کچھ نہیں کہاجائےگا۔
3۔
احادیث نبویہ کی کتابت وتدوین اگرچہ عارضی طور پر عمومی حکومت کے تحت ممنوع تھی۔
مگر بعض افراد کو ان کے لکھنے کی رخصت بھی دی گئی تھی۔
جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ زکواۃ کی تفصیلات اور حضرت ابو شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خطبہ لکھوا کر عنایت فرمایا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2017
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4313
4313. حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اسی دن اس نے مکے کو حرمت والا قرار دے دیا تھا۔ یہ شہر اللہ کے حرام ٹھہرانے سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل کسی جانور کو نہ چھیڑا جائے۔ یہاں کے کانٹے دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں، اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے، نیز یہاں پر گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کے اعلان کا ارادہ رکھتا ہو۔“ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کی اجازت دیں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کی ضرورت ہے۔ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”ٹھیک ہے اذخر اس سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4313]
حدیث حاشیہ:
مجاہد تابعی ہیں تو یہ حدیث مرسل ہوئی مگرا مام بخاری ؒ نے اس کو کتاب الحدود کتاب جہاد میں وصل کیا ہے۔
مجاہد سے، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے۔
صداقت محمدی اس سے ظاہر ہے کہ مکۃ المکرمہ آج بھی حرم ہے اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔
آ ج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہوسکے گا۔
حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کابہت کچھ تحفظ کیا ہے۔
اللہ تعالی اس حکومت کو قائم ودائم رکھے۔
آمین۔
حضرت علامہ ابن قیم ؒ نے فتح مکہ کوفتح اعظم سے تعبیر کرتے ہوے لکھا ہے فصل في الفتح الأعظم الذي أعز اللہ به دینه ورسوله و جندہ وحرمه الأمین واستنقذ به بلدہ وبیته الذي جعله ھدی للعالمین من أیدي الکفار والمشرکین وھو الفتح الذي استبشربه أھل السماءوضربت أطناب عزة علی مناکب الجوزاء ودخل الناس به في دین اللہ أفواج وأشرق به وجه الأرض ضیاءوابتھاجا (زاد المعاد)
یعنی اللہ تبارک و تعالی نے فتح مکہ سے اپنے دین کو اپنے رسول کو اپنی فوج کو اپنے امن والے شہر کو بہت بہت عزت فرمائی اور شہر مکہ اور خانہ کعبہ کوجو سارے جہانوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے اس کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے آزادی نصیب کی۔
یہ وہ فتح ہے جس کی خوشی آسمانی مخلوق نے منائی اور جس کی عزت کے جھنڈے جوزہ ستارے پر لہرائے اور لوگ جوق در جوق جس کی وجہ سے اللہ کے دین میں داخل ہوگئے جس کی برکت سے ساری زمین منور ہوکر روشنی اور مسرت سے بھر پور ہو گئی۔
غزوئہ فتح مکہ کا ذکر مزید تفصیل کے ساتھ یوں ہے۔
غزوات نبوی کے سلسے میں فتح مکہ کا کارنامہ (گو صحیح معنی میں غزوہ وہ بھی نہیں)
کہنا چاہئے کہ سب سے بڑا کا رنامہ ہے اور لڑائیاں چھوٹی بڑی جتنی بھی ہوئی سب کا مرکزی نقطہ یہی تھا۔
صلح حدیبیہ کا زمانہ فتح مکہ سے کوئی دوسال قبل کا ہے۔
قرآن مجید نے پیش خبری اسی وقت تعین کے ساتھ کردی تھی ﴿اناَّ فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینَا﴾ (الفتح: 1)
”ہم نے اے پیغمبر! آپ کو ایک فتح دے دی کھلی ہوئی“ فتح سے آیت میں گو اشارہ قریب صلح حدیبیہ کی جانب ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اشارہ بعید فتح مکہ کی جانب ہے۔
عرب اب جوق در جوق ایمان لارہے تھے اور قبیلے پر قبیلے اسلام میں داخل ہوتے جا رہے تھے۔
فتح مکہ چیز ہی ایسی تھی۔
قرآن مجید نے اس کی اپنی زبان بلیغ میں یوں نقشہ کشی کی ہے۔
﴿إذا جَائَ نَصرُ اللّہِ وَالفَتحُ وَرَایتَ النَّاسَ یَدخُلُونَ فِی دِینِ اللّہِ افوَاجَا﴾ (النصر: 1-2)
جب آگئی اللہ کی مدد اور فتح مکہ اور آپ نے لوگوں کو دیکھ لیا کہ لوگ فوج کی فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں اور خیر یہ صورت تو فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی خود فتح اس طرح حاصل ہوئی کہ گو آنحضور ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابیوں کا لشکرتھا اور عرب کے بڑے بڑے پر قوت قبیلے اپنے الگ الگ جیش بناتے ہوئے اور اپنے اپنے پرچم اڑاتے ہوئے جلو میں تھے لیکن خونریزی دشمن کے اس شہر بلکہ دار الحکومت میں برائے نام ہی ہونے پائی اور شہر پر قبضہ بغیر خون کی ندیاں بہے گویا چپ چپاتے ہوگیا۔
﴿وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا﴾ (الفتح: 24)
وہ اللہ وہی ہے جس نے روک دئے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے شہر مکہ میں بعد اس کے کہ تم کو اس نے ان پر فتح مند کردیا تھا۔
اس آ یت میں اشارہ جہاں بقول شار حین کے حدیبیہ کی طرف ہے وہیں بہ قول بعض دوسرے شارحین کے غیر خون پر فتح مکہ کی جانب ہے۔
فتح مکہ کا یہ عظیم الشان اور دنیا کی تاریخ کے لیے نادر اور یادگار واقعہ رمضان 8 مطابق جنوری 630 عیسوی میں پیش آیا۔
(قرآنی سیرت نبوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4313
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4313
4313. حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اسی دن اس نے مکے کو حرمت والا قرار دے دیا تھا۔ یہ شہر اللہ کے حرام ٹھہرانے سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل کسی جانور کو نہ چھیڑا جائے۔ یہاں کے کانٹے دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں، اور نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے، نیز یہاں پر گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کے اعلان کا ارادہ رکھتا ہو۔“ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کی اجازت دیں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کی ضرورت ہے۔ آپ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”ٹھیک ہے اذخر اس سے مستثنیٰ ہے۔ چنانچہ یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4313]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ امام مجاہد تابعی ہیں کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دوسرے مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3189۔
)
2۔
واضح رہے کہ مکہ مکرمہ آج تک حرم اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔
آج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہو سکے گا۔
حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کا بہت تحفظ کیا ہے۔
حرم پاک کی حفاظت کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کو مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اللہ اس حکومت کو قائم و دائم رکھے۔
3۔
چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خطبے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سےبیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 112۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4313