صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
18. بَابُ الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْرَامِ وَمَا يَلْبَسُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ وَيَتَرَجَّلَ وَيَدَّهِنَ:
باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔
حدیث نمبر: 1538
حَدَّثَنِي الْأَسْوَدُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ".
مجھ سے تو اسود نے بیان کیا، اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرم ہیں اور گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1538 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1538
حدیث حاشیہ:
ابراہیم نخعی کامطلب یہ ہے کہ ابن عمر نے جو احرام لگاتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور سادہ بغیر خوشبو کا تیل ڈالا تو ہمیں اس فعل سے کوئی غرض نہیں جب آنحضرت ﷺ کی حدیث موجود ہے۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت آپ نے خوشبو لگائی۔
یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کا اثر آپ کی مانگ میں رہا۔
اس روایت سے حنفیہ کو سبق لیناچاہئے۔
ابراہیم نخعی حضرت امام ابو حنیفہ کے استاذ الاستاذ ہیں انہوں نے حدیث کے خلاف ابن عمر ؓ کا قول وفعل رد کردیا تواور کس مجتہد اور فقیہ کا قول حدیث کے خلاف کب قابل قبول ہوگیا (مولانا وحید الزماں مرحوم)
اس مقام پر حدیث نبوی لَوکانَ مُوسیٰ حَیا واتبعتموہ الخ بھی یاد رکھنی ضروری ہے۔
یعنی آپ نے فرمایا کہ اگر آج موسیٰ ؑ زندہ ہوں اور تم میرے خلاف ان کی اتباع کرنے لگو تو تم سیدھے راستے سے گمراہ ہوجاؤ گے مگر مقلدین کا حال اس قدر عجیب ہے کہ وہ اپنے اماموں کی محبت میں نہ قرآن کو قابل غور گر دانتے ہیں نہ احادیث کو۔
ان کا آخری جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم کو قول امام بس ہے۔
ایسے مقلدین جامد کے لئے حضرت امام مہدی ؑ ہی شاید راہنما بن سکیں ورنہ سراسر نا امیدی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1538
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1538
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابراہیم نخعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو احرام پہنتے وقت خوشبو سے پرہیز کیا اور بغیر خوشبو کے سادہ زیتون کا تیل استعمال کیا تو ہمیں ان کے فعل سے کوئی غرض نہیں جبکہ ان کے عمل کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا عمل موجود ہے جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ احرام باندھتے وقت رسول اللہ ﷺ نے خوشبو لگائی یہاں تک کہ احرام کے بعد بھی اس کے اثرات آپ کی مانگ میں موجود تھے۔
(2)
اس سلسلے میں سعید بن منصور نے اپنی جامع میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا موقف تھا کہ احرام کے وقت خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ؒ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔
اس وقت میں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا، میں چاہتا تھا کہ میرے والد محترم کو بھی حضرت عائشہ ؓ کے موقف کا پتہ چل جائے، چنانچہ میرا قاصد والد محترم کی موجودگی میں آیا اور حضرت عائشہ ؓ کا موقف ان کے گوش گزار کر دیا۔
میرے والد گرامی کہتے تھے:
احرام کے وقت خوشبو استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
جب انہیں حضرت عائشہ کے موقف کا پتہ چلا تو خاموش رہے۔
اس کا کوئی جواب نہ دیا۔
اسی طرح حضرت سالم بن عبداللہ بھی اپنے باپ حضرت عبداللہ ؓ اور دادے حضرت عمر ؓ کی اس سلسلے میں مخالفت کرتے تھے کیونکہ انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث پہنچ چکی تھی اور وہ فرماتے تھے:
رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع زیادہ مقدم ہے۔
(فتح الباري: 501/3)
اس واقعے سے مقلدین کو سبق لینا چاہیے جو حدیث نبوی کے مقابلے میں اپنے امام کی بات پر کاربند رہتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1538