سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
60. باب الْخُرُوجِ إِلَى عَرَفَةَ
باب: (منیٰ سے) عرفات جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1913
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" غَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ صَبِيحَةَ يَوْمِ عَرَفَةَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَنَزَلَ بِنَمِرَةَ وَهِيَ مَنْزِلُ الْإِمَامِ الَّذِي يَنْزِلُ بِهِ بِعَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَجِّرًا فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ رَاحَ فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ مِنْ عَرَفَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر پڑھ کر منیٰ سے چلے یہاں تک کہ عرفات آئے تو نمرہ میں اترے اور نمرہ عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے، جب ظہر کا وقت آنے کو ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نمرہ سے) عین دوپہر میں چلے اور ظہر اور عصر کو جمع کیا، پھر لوگوں میں خطبہ دیا ۱؎ پھر چلے اور عرفات میں موقف میں وقوف کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8416)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/129) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس کے برخلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں نماز سے پہلے خطبہ کا ذکر ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ دی جاتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو عام نصیحت پر محمول کر لیا جائے، اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کو عرفہ کے مسنون خطبہ پر، یا یہ کہا جائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں راوی کو وہم ہو گیا ہے، واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1913 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1913
1913. اردو حاشیہ: صحیح تر روایات کے مطابق خطبہ عرفات نماز سے پہلے ہے۔(صحیح مسلم الحج حدیث 1218)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1913
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 173
´سفر میں دو نمازیں جمع کرنا`
«. . . وبه: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء . . .»
”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 173]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 703، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ سفر میں دو نمازیں مثلا مغرب اور عشاء یا ظہر اور عصرجمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔
➋ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [موطأ امام مالك ح 488، 190، 109، 108، البخاري 4414، 139، ومسلم: 1280، 705، 2281]
➌ جب بارش میں حکمران مغرب اور عشاء کی نماز میں جمع کرتے تھے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ جمع کر لیتے تھے۔ ديكهئے [الموطا 145/1 ح 329 وسنده صحيح]
➍ مدینہ طیبہ کے مشہور تابعی اور فقیہ امام سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ نے سفر میں ظہر اور عصر کی نمازوں کے جمع کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ [الموطا 145/1 ح 330 وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 199
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 589
´جمع بین الصلاتین کا بیان۔`
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے۔“ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 589]
589 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تقدیم کی یا تاخیر یا پھر صوری؟ تینوں کا احتمال ہے، تاہم حدیث: 592سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تاخیر کی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 589
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 596
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 596]
596 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بظاہر جمع صوری کا ذکر ہے جب کہ پچھلی روایات میں جمع تاخیر کا، گویا دونوں جائز ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ان روایات کو تعددِ واقعہ پر محمول کیا ہے، یعنی کبھی نمازیں جمع حقیقی کی صورت میں اور کبھی جمع صوری کی شکل میں ادا کیں، لہٰذا اس طرح روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍750، 751، حدیث: 1109]
نیز بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اہلیہ مدینے میں تھیں اور آپ مکہ میں تو اس طرح مدینہ پہنچنے تک تین دن لگے تھے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍274]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 596
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 597
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 597]
597 ۔ اردو حاشیہ: مزید دیکھیے سنن نسائی حدیث: 589۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 597
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 600
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 600]
600 ۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت صحیح ہے، البتہ اس روایت کے الفاظ «أَوْ حَزَبَهُ أَمْرٌ» ”یا کوئی مسئلہ آپ کو بے چین کرتا۔ ‘“ کو محققین نے شاذ قرار دیا ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ جملہ صرف مجھے یہاں ہی ملا ہے کسی اور جگہ نہیں ملا۔ دیکھیے: [صحیح سنن النسائي للألباني، حدیث: 598]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 600
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1209
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک بار کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث «ایوب عن نافع عن ابن عمر» سے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1209]
1209۔ اردو حاشیہ:
یہ ر وایت مرفوعاً صحیح ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1209
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1217
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اس وقت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا، پھر ہم چلے، جب دیکھا کہ رات آ گئی ہے تو ہم نے کہا: نماز (ادا کر لیں) لیکن آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی اور تارے پوری طرح جگمگا نے لگے، پھر آپ اترے، اور دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کیں، پھر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلتے رہنا ہوتا تو میری اس نماز کی طرح آپ بھی نماز ادا کرتے یعنی دونوں کو رات ہو جانے پر ایک ساتھ پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث عاصم بن محمد نے اپنے بھائی سے اور انہوں نے سالم سے روایت کی ہے، اور ابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ذویب سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نمازوں کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شفق غائب ہونے کے بعد جمع کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1217]
1217. اردو حاشیہ:
مذکورہ آثار دلیل ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل «جمع بين الصلواتين» ”غیوب شفق“ کے بعد تھا۔ بخلاف اس کے کہ جو پیچھے (سنن ابی داود حدیث [1212] میں) ”غیوب شفق“ سے قبل نمازوں کو جمع کرنا ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جو صحیح نہیں ہے جیسا کہ وہاں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1217
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 555
´دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 555]
اردو حاشہ:
1؎:
ان کا نام صفیہ بنت ابی عبید ہے۔
2؎:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بہت سے علماء کا یہی قول ہے کہ دو نمازوں کے درمیان جمع اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب آدمی سفر میں چلتے رہنے کی حالت میں ہو،
اگر مسافر کہیں مقیم ہو تو اسے ہر نماز اپنے وقت ہی پر پڑھنی چاہئے،
اور احتیاط بھی اسی میں ہے،
ویسے میدان تبوک میں حالتِ قیام میں آپ ﷺ سے جمع بین الصلاتین ثابت ہے،
لیکن اسے بیانِ جواز پر محمول کیا جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 555
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:628
628-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی سے سفر کرنا ہوتاتھا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کی نماز یں ایک ساتھ ادا کرتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:628]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفر کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا درست ہے۔ سیدنا انس بن ما لک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کے زوال سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر کے دونوں نمازوں کو جمع کرتے تھے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر سے پہلے سورج ڈھل جا تا تو ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہو جاتے تھے۔ [صحيح البخاري: 1111ـ صـحيح مسلم: 704]
جمع کی معروف تین صورتیں ہیں: جمع تاخیر، جمع تقدیم اور جمع صوری، یہ تینوں صورتیں ہی جائز ہیں۔ جمع صوری سے مراد ظہر کی نماز کو ظہر کے آخری وقت میں اور عصر کی نماز کو عصر کے اول وقت میں پڑھنا۔ اس کے جواز کی دلیل [سنن ابي داود: 1212] میں ہے۔ نیز بارش کی وجہ سے بھی نماز میں جمع کرنا درست ہے۔ [صحيح مسلم: 705 1636]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 628
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1624
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں مجھے میرے باپ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ کو سفر میں تیز چلنے کی ضرورت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کر دیتے حتیٰ کہ اسے اور عشاء کی نماز کو جمع کر لیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1624]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب انسان سفر میں ہو اور کسی ضرورت یا سبب کے تحت اسے سفر کو جلد از جلد طے کرنے کی ضرورت ہو تو وہ نماز کے لیے تین طریقے اختیار کر سکتا ہے۔
1۔
جمع تقدیم دو نمازوں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھ لے اورمغرب وعشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھ لے۔
2۔
جمع تاخیر دو نمازوں یعنی ظہر اورعصر کو عصر کے وقت میں پڑھ لے اور مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں پڑھ لے۔
3۔
ظہر وعصر کو اس طرح پڑھے کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں لے جائے کہ اس سے فراغت کے بعد عصر کا وقت ہو جائے تو اس طرح ظہر آخری وقت میں پڑھی گئی ہے۔
اور عصر وقت کے شروع میں پڑھ لی گئی۔
لیکن دونوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت میں پڑھا گیا مغرب اور عشاء کے لیے بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ مغرب اپنے آخری وقت میں عشاء اپنے وقت کے شروع میں پڑھ لی جائے گی۔
احادیث سے سفر میں پہلے دونوں طریقے ثابت ہیں۔
اور ان دونوں صورتوں میں جمع حقیقی ہوتی ہے یعنی ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھی گئی ہے۔
اور ائمہ ثلاثہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس کے قائل ہیں۔
لیکن احناف کے نزدیک پہلا طریقہ صرف عرفات میں ظہر اور عصر کے ساتھ خاص ہے کہ عصر کی نماز ظہر کے وقت میں پڑھی جائے گی اور دوسرا طریقہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کے ساتھ خاص ہے کہ مغرب،
عشاء کے وقت میں پڑھی جائے گی ان دومقامات کے سوا حقیقی جمع جائز نہیں ہے اور جمع حقیقی پر دلالت کرنے والی احادیث کی وہ بلاوجہ تاویل کرتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1624
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1092
1092.۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1092]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
آپ ﷺ نے سفر میں مغرب کی تین رکعت فرض نمازادا کی
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1092
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1805
1805. حضرت زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ تھا۔ اس دوران میں انھیں صفیہ بنت ابو عبید ؓ کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو انھوں نےاپنی سواری تیز کردی تا آنکہ غروب شفق کے بعد اپنی سواری سے اترے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں، پھر فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کرتے اور دونوں نمازوں (مغرب وعشاء) کو جمع کر کے پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1805]
حدیث حاشیہ:
یہ اس لیے کہ اسلام سراسر دین فطرت ہے، زندگی میں بسااوقات ایسے مواقع آجاتے ہیں کہ انسان وقت پر نماز ادا کرنے سے سراسر مجبور ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں یہ سہولت رکھی گئی کہ دو نمازیں ملا کر پڑھ لی جائیں، اگلی نماز مثلاً عشاءکو پہلی یعنی مغرب میں ملا لیا جائے یا پھر پہلی نماز کو دیر کرکے اگلی یعنی عشاءمیں ملا لیا جائے ہر دو امر جائز ہیں مگر یہ سخت مجبوری کی حالت میں ہے ورنہ نماز کا ادا کرنا اس کے مقررہ وقت ہی پر فرض ہے۔
ارشاد باری ہے ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾ اہل ایمان پر نماز کا بروقت ادا کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔
مسائل و احکام حج کے سلسلے میں آداب سفر پر روشنی ڈالنا ضروری تھا۔
جب کہ حج میں از اول تا آخر ہی سفر سے سابقہ پڑتا ہے، اگرچہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مگر سفر وسیلہ ظفر بھی ہے جیسا کہ حج ہے۔
اگر عنداللہ یہ قبول ہو جائے تو حاجی اس سفر سے اس حالت میں گھر واپس ہوتا ہے کہ گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
یہ اس سفر ہی کی برکت ہے کہ مغفرت الٰہی کا عظیم خزانہ نصیب ہوا بہرحال آداب سفر میں سب سے اولین ادب فرض نماز کی محافظت ہے۔
پس ہرمسلمان کی یہ عین سعادت مندی ہے کہ وہ سفر وحضر میں ہر جگہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائے، ساتھ ہی اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی آسانیاں بھی دیں تاکہ سفر وحضر میں ہر جگہ یہ فر ض آسانی سے ادا کیا جاسکے، مثلاً ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض ہے مگر پانی نہ ہو تو مٹی سے تیمم کیا جاسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو قابل عبادت قرار دیا گیا کہ جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز ادا کرسکیں حتی کہ دریاؤں میں، پہاڑوں کی چوٹیں پر، لق و دق بیابانوں میں، زمین کے چپہ چپہ پر نماز ادا کی جاسکتی ہے اور یہ بھی آسانی دی گئی جس پر مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے باب میں اشارہ فرمایا ہے کہ مسافر خواہ وہ حج ہی کے لیے کیوں نہ سفر کر رہا ہو دو دو نمازوں کو بیک وقت ملا کر ادا کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث باب میں مذکور ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ کی بیماری کی خبر سنی تو سواری کو تیز کر دیا تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ کر مریضہ کی تیمارداری کرسکیں، نیز نماز مغرب اور عشاءکو جمع کرکے ادا کر لیا، ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ رسول کریم ﷺ بھی سفر میں نمازوں کو اس طرح ملا کر ادا فرما لیا کرتے تھے۔
ایک ایسے دین میں جو تاقیامت عالمگیری شان کے ساتھ باقی رہنے کا دعوایدار ہو ایسی جملہ آسانیوں کا ہونا ضروری تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ محتاج تعارف نہیں ہیں۔
ان کی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ فاروق اعظم عمر بن خطاب ؓ کے صاحب زادے ہیں، آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید بنوثقیف سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے آنحضرت ﷺ کو پایا اور آپ کے ارشاد طیبات سننے کا موقعہ ان کو بارہا ملا۔
آپ کی مرویات حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے توسط سے ہیں، اور حضرت نافع جو حضرت عبداللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ ان سے روایت کرتے ہیں رضي اللہ عنهم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1805
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1092
1092.۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1092]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں دوران سفر دوگانہ پڑھنے کا ذکر ہے، نماز مغرب اس سے مستثنیٰ ہے۔
اسے قصر کے بجائے پورا پڑھا جائے۔
اس پر علماء کا اجماع ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ سے مسافر کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
”دوران سفر مسافر کی نماز دو دو رکعت ہیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ادا کرنا ہوں گی۔
“ (فتح الباري: 739/2)
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہے، جیسا کہ راوئ حدیث حضرت لیث کی پیش کردہ روایت میں صراحت ہے بلکہ پہلی حدیث کے بعض طرق میں بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی تین رکعت ادا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1108)
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں دوگانہ پڑھتے تھے، لیکن مغرب کا دوگانہ نہیں تھا۔
اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ دوران سفر دو دو رکعت پڑھیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ہوتی تھیں۔
(فتح الباري: 740/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1092
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1805
1805. حضرت زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ تھا۔ اس دوران میں انھیں صفیہ بنت ابو عبید ؓ کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو انھوں نےاپنی سواری تیز کردی تا آنکہ غروب شفق کے بعد اپنی سواری سے اترے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں، پھر فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کرتے اور دونوں نمازوں (مغرب وعشاء) کو جمع کر کے پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1805]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ ضرورت کے پیش نظر تیز چلنے کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ کو جب اطلاع ملی کہ ان کی اہلیہ سخت بیمار ہیں تو انہوں نے اپنی سواری کو تیز کر دیا۔
ابوداود کی روایت میں ہے کہ انہوں نے تین دنوں کا سفر ایک دن اور ایک رات میں طے کیا۔
(سنن أبي داود، صلاةالسفر، حدیث: 1212)
ایسے حالات میں تیز چلنا جائز ہے۔
الغرض اگر ضرورت تیز چلنے کی ہو اور سواری میں اس کی طاقت ہو تو تیز رفتاری جائز ہے۔
اگر کوئی مجبوری نہ ہو اور جانور بھی اس کا متحمل نہ ہو تو تیز رفتاری ممنوع ہے۔
واللہ أعلم۔
امام بخاری ؒ کا مقصد دو نمازوں کو جمع کرنے کا جواز قطعا نہیں جیسا کہ بعض شراح بخاری نے اس مقام پر بیان کیا ہے، بلکہ وہ آداب سفر سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1805
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3000
3000. حضرت اسلم سے روایت ہے، انھوں نے کہا میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ مکہ کے راستے میں تھا کہ انھیں صفیہ بنت ابو عبید ؓ کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی۔ اس دوران میں وہ تیز رفتار سے چلے حتی کہ سرخی غروب ہونے کے بعد اپنی سواری سے اترے اور مغرب و عشاء دونوں نمانوں کو جمع کر کے ادا کیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کر دیتے، پھر مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3000]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت صفیہ بنت ابو عبید ؓ،حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا اور آپ کا کلام بھی سنا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒبتانا چاہتے ہیں کہ سفر جہاد وغیرہ میں کسی مصلحت کے پیش نظر جلدی کرنا معیوب نہیں ایسا کرنا حالات پر موقوف ہے بہر حال فراغت کے بعد گھر جلدی واپس آنا آداب سفر میں سے ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3000