Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
51. باب فِي الرَّمَلِ
باب: طواف میں رمل کا بیان۔
حدیث نمبر: 1887
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ:" فِيمَ الرَّمَلَانُ الْيَوْمَ وَالْكَشْفُ عَنِ الْمَنَاكِبِ، وَقَدْ أَطَّأَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَنَفَى الْكُفْرَ وَأَهْلَهُ مَعَ ذَلِكَ، لَا نَدَعُ شَيْئًا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: اب رمل اور مونڈھے کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو اللہ نے اسلام کو مضبوط کر دیا ہے اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کر دیا ہے، اس کے باوجود ہم ان باتوں کو نہیں چھوڑیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کیا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المناسک 29(2952)، (تحفة الأشراف: 10391)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/45) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ شرع کی جس بات کی علت و حکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو علی حالہ چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ کے رسول کی اتباع ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه ابن ماجه (2952 وسنده حسن)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1887 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1887  
1887. اردو حاشیہ: اس حدیث سے جناب امیر المومنین خلیفہ ثانی عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم منکبت ار سنت رسول ﷺکے ساتھ والہانہ لگائواورعقیدت ثابت ہوتی ہے۔وللہ درۃ
➋ بعض اعمال شرعیہ کی اصل بنا خواہ کوئی وقتی اسباب بھی ہوں۔ مگر چونکہ رسول اللہ ﷺنے تعلیم فرمائی ہے۔ اس لئے ہمیں ان کاکرنا لازم ہے۔خواہ اب وہ اسباب موجود ہوں یانہ ہوں۔مثلا یہی رمل کا عمل یا جمعہ کے روز کاغسل ہے۔ کے ابتداء محض نظافت کی بنا ءپر مشروع کیا گیا تھا لیکن اب واجب یامستحب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1887   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2952  
´بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔`
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ اب دونوں رمل (ایک طواف کا، دوسرا سعی کا) کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مضبوط کر دیا، اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کر دیا ہے، لیکن قسم اللہ کی! ہم تو کوئی ایسی بات چھوڑنے والے نہیں جس پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عمل کیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2952]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
رمل کی مشروعیت کی حکمت کافروں پر مسلمانوں کا رعب طاری کرنا اور انھیں یہ احساس دلانا ہے کہ مسلمان کمزور نہیں۔

(2)
فتح مکہ کے بعد حرم میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع قراردیا گیا ہے۔
اب وہ مسلمانوں کو رمل کرتے نہیں دیکھ سکتے، قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اب رمل نہ کیا جائے لیکن قیاس کے ذریعے سے کوئی شرعی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔

(3)
اگر رمل منسوخ ہونا ہوتا تو فتح مکہ کے بعد اللہ تعالی اسے منسوخ کردیتا۔
اگر اس وقت منسوخ نہیں ہوا تو نبیﷺ کی وفات کے بعد اسے موقوف کیا جاسکتا ہے۔

(4)
بعض اوقات ایک شرعی حکم کی حکمت واضح نہیں ہوتی لیکن اس وجہ سے اس حکم پر عمل کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔

(5)
ممکن ہے اس کے منسوخ نہ ہونے میںیہ حکمت ہو کہ حج کے اعمال ایک لحاظ سے جہاد کی تربیت پر مشتمل ہیں اور جہاد قیامت تک جاری رہے گا لہٰذا اس کی تربیت کے کسی عمل کو منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں۔

(6)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سنت نبوی پر اس حد تک عمل کرنے والے تھے کہ جس کی بظاہر کوئی حکمت نظر نہیں آتی اسے بھی ترک نہیں کیا تاکہ عام لوگوں کی نظر میں سنت کی اہمیت واضح ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2952