Note: Copy Text and to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
45. باب دُخُولِ مَكَّةَ
باب: مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1869
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنْ أَعْلَاهَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوتے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور اس کے نشیب سے نکلتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 41 (1577)، صحیح مسلم/الحج 37 (1258)، ن الکبری/ الحج 29 (4241)، سنن الترمذی/الحج 30 (853)، (تحفة الأشراف: 16923)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/40) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1577) صحيح مسلم (1258)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1869 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1869  
1869. اردو حاشیہ: آمد ورفت کے راستوں میں اختلاف کے اندر شاید وہی حکمت پنہاں ہے۔جو نماز عید اور عرفات کو جانے آنے میں فرق رکھنے میں ملحوظ ہے یعنی مقامات عبادت کی کثرت کہ انسان کو قیامت کے دن زمین کے ان حصوں کی شہادت خیر بھی حاصل ہوجائے۔(تیسر العلام شرح عمدۃ الاحکام]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1869   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 853  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مکہ میں بلندی کی طرف۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آتے تو بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 853]
اردو حاشہ:
1؎:
بلندی سے مراد ثنیہ کداء ہے جو مکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے،
اور بلند ہے اور نشیب سے مراد ثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اور باب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 853   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1578  
1578. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کےسال کُداء کی جانب سے داخل ہوئےاور اعلیٰ مکہ کی جانب مقام کَدا سے واپس تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1578]
حدیث حاشیہ:
کداء بالمد ایک پہاڑ ہے مکہ کے نزدیک اور کدیٰ بضمِ کاف بھی ایک دوسرا پہاڑ ہے جو یمن کے راستے ہے۔
یہ راویت بظاہر اگلی روایتوں کے خلاف ہے۔
لیکن کرمانی نے کہا کہ یہ فتح مکہ کا ذکر ہے اور اگلی روایتوں میں حجتہ الوداع کا۔
حافظ نے کہا یہ راوی کی غلطی ہے اور ٹھیک ہے کہ آپ ﷺ کداء یعنی بلند جانب سے داخل ہوئے یہ عبارت من اعلیٰ کداء مکۃ سے متعلق ہے نہ کدیٰ بالقصر سے (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1578   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4290  
4290. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ فتح مکہ کے سال کداء کی جانب سے داخل ہوئے جو مکہ کی بالائی جانب ہے۔ ابو اسامہ اور وہیب نے شعبہ سے کداء کا لفظ بیان کرنے میں حفص بن میسرہ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4290]
حدیث حاشیہ:
کدآءبالمد اور کداءبالقصر دونوں مقاموں کے نام ہیں۔
پہلا مقام مکہ کے بالائی جانب میںہے اور دوسرا نشیبی جانب میں اور یہ روایت ان صحیح روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کداءیعنی بالائی جانب سے داخل ہوئے اور خالد ؓ کو کداءیعنی نشبی جانب سے داخل ہونے کا حکم دیا۔
جب خالد بن ولید ؓ سپاہ گراں لیے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو مشرکوں نے ذرا سا مقابلہ کیا۔
کفار کو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے اکٹھا کیا تھا۔
مسلمانوں میں سے دو شخص شہید ہوئے اور کافر بارہ تیرہ مارے گئے باقی سب بھاگ نکلے یہ پہلے بھی مذکور ہوچکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4290   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1578  
1578. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کےسال کُداء کی جانب سے داخل ہوئےاور اعلیٰ مکہ کی جانب مقام کَدا سے واپس تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1578]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت پہلی روایت کی تفسیر کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اعلیٰ جانب سے داخل ہوئے اور نچلی جانب سے واپس تشریف لے گئے۔
اکثر شارحین نے دوسری روایت کو راوی کے وہم پر محمول کیا ہے کہ اس نے اعلیٰ مکہ کو کدی کے ساتھ بیان کیا ہے، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی وہم کی بات کی ہے لیکن ہمارے نزدیک اس روایت کو راوی کے وہم پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اعلیٰ مکہ کداء کی تفسیر یا اس کا بدل ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ مفسر اور مفسر میں ایک اجنبی کا فاصلہ ہے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، عربی زبان میں بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے۔
بہرحال اس روایت کو راوی کے وہم پر محمول کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ اس کی تاویل کی جائے، خواہ وہ بعید ہی کیوں نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1578