Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
44. باب الإِحْصَارِ
باب: حج سے روک لیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1862
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ"، قَالَ عِكْرِمَةُ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَا: صَدَقَ.
حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا، اب اس پر اگلے سال حج ہو گا ۱؎۔ عکرمہ کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا: انہوں نے سچ کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الحج 96 (940)، سنن النسائی/الحج 102(2863)، سنن ابن ماجہ/المناسک 85 (3078)، (تحفة الأشراف: 3294، 6241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/450)، سنن الدارمی/المناسک 57 (1936) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہو جائے تو وہ وہیں پر حلال ہو جائے گا، لیکن آئندہ سال اس کو حج کرنا ہو گا، اگر یہ حج فرض حج ہو تو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (2713)
يحيي بن أبي كثير صرح بالسماع عند ابن ماجه (3077 وسنده صحيح)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1862 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1862  
1862. اردو حاشیہ: آئندہ حج کے لئے آنافرض کی قضا تو فرض ہے۔اگر یہ حج نفل ہوتو بھی راحج یہی ہے کہ دوبارہ آئے اور یہی حکم عمرہ کا ہے۔اور ظاہر ہے کہ یہ احکام استطاعت اوروسائل ہی پر مبنی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1862   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 647  
´حج سے محروم رہ جانے اور روکے جانے کا بیان`
سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ نے حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا پاؤں توڑا جائے یا لنگڑا ہو جائے وہ احرام سے باہر آ گیا اب اس پر آئندہ سال حج کرنا لازمی و ضروری ہے۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو ان دونوں نے جواب دیا کہ حجاج بن عمرو نے ٹھیک اور سچ کہا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 647]
647لغوی تشریح:
«كسرا» صیغہ مجہول۔
«او عرج» عین اور را دونوں پر فتحہ ہے۔ پاؤں میں ایسی چوٹ آنا جو پیدائشی نہ ہو۔ جب پیدائشی چوٹ ہو تو اس صورت میں «عرج»، یعنی را کے کسرہ سے پڑھا جاتا ہے۔
«فقد حلّ» یعنی اس کے لیے احرام ترک کر دینا جائز ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن اور گھر کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
«و عليه الحج من قابل» آئندہ سال حج کی قضائی دے گا جبکہ یہ فرض حج ہو لیکن اگر حج نفلی ہو تو پھر کچھ بھی نہیں۔ اس سلسلے میں علامہ یمانی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ محرم، احرام سے تین امور کی وجہ سے نکل سکتا ہے:
➊ احصار کی وجہ سے۔ یہ احصار خواہ کسی بھی مانع کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔
➋ اس نے شرط کر لی ہو۔
➌ کسی حادثے کی وجہ سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی یا وہ لنگڑا ہو گیا ہو۔
رہا وہ شخص جس کا حج احصار کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے فوت ہو ا ہو۔ اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ حج اور عمرے کے لیے جو احرام باندھا تھا اس سے حلال ہو جائے۔ حضرت عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ عمرے کے لیے تلبیہ کہے گا اور ازسر نو دوبارہ احرام باندھے گا، پھر جس کا حج فوت ہو جائے اس کے لیے دم دینے میں اختلاف ہے۔ ظاہر بات یہی ہے کہ دم دینا، قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔

راوئ حدیث:
حضرت عکرمہ رحمہ الله، عکرمہ میں عین کے نیچے کسرہ کاف ساکن اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ ابوعبداللہ کنیت ہے۔ مدینہ کے رہنے والے تھے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام تھے۔ بربر قبیلے سے تھے۔ بڑے علماء میں کا ان کا شمار ہوتا ہے۔ فقہائے مکہ میں سے تھے۔ تابعین کے درمیانے طبقے میں شامل ہیں۔ 107 ہجری میں 80 سال کی عمر پا کر فوت ہوئے۔ بعض نے سن وفات میں اختلاف کیا ہے۔

وضاحت:
حضرت حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ، ان کا پورا نام حجاج بن عمرو بن غزیہ انصاری مازنی مدنی ہے۔ شرف صحابیت سے سر فراز ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شامل ہوئے۔ ان سے دو احادیث مروی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 647