سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
41. باب لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
باب: محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1851
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي الْإِسْكَنْدَرَانِيَّ الْقَارِيَّ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْظَرُ بِمَا أَخَذَ بِهِ أَصْحَابُهُ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے اس وقت حلال ہے جب تم خود اس کا شکار نہ کرو اور نہ تمہارے لیے اس کا شکار کیا جائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب دو روایتیں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس کے موافق ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 25 (846)، سنن النسائی/الحج 81 (2830)، (تحفة الأشراف: 3098)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/362، 387، 389) (ضعیف)» (عمرو بن أبی عمرو اور مطلب میں کلام ہے لیکن اگلی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (846) نسائي (2830)
المطلب لم يسمع ھذا الحديث من جابر رضي اللّٰه عنه كما قال أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 210)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 72
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1851 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1851
1851. اردو حاشیہ: یہ حدیث سندا تو صحیح نہیں۔مگر معنا درست ہے۔اور مسئلہ یہی ہے۔جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے۔(کتاب جزاء الصید۔احادیث۔1825تا1821)اوراگلی حدیث میں بھی مروی ہے۔
➋ امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ کابیان جب دو حدیثیں ایک دوسرے کے برخلاف ملیں الخ معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح الاسناد احادیث میں جہاں تعارض محسوس ہوتا ہے ان میں یقیناً پہلے کا قول وعمل مسنوخ اور بعد والا ناسخ ہوتا ہے۔ اور تواریخ کا علم نہ ہوسکے۔تو دیگر وجو ہ ترجیحات کے ذریعے سے ایک کو راحج اور دوسرے کو مرجوح قرار دیا جائے گا۔اس قسم کی تحقیقات علمائے راسخین اور ان کی موثوق تالیفات ہی سے مل سکتی ہیں۔اس موضوع پر علمائے محدثین نے بہت محنت کی ہے۔مثلاً کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ (للحاذی)۔الناسخ والمنسوخ (امام احمدؒ) تجرید الاحادیث المنسوخۃ ابن الجوزی۔بظاہر مختلف المعانی احادیث کے سلسلے میں یہ کتب قابل مراجعہ ہیں۔ اختلاف الحدیث (امام شافعی ؒ) تاویل مختلف الحدیث (ابن قتیبہ عبد اللہ ب ن مسلم ؒ اور۔مشکل الاثار (ابو جعفر احمد بن سلامہ الطحاوی)
➌ امام الائمہ ابو بکر بن خزیمہ ؒ فر مایا کرتے تھے۔ کہ جس شخص کو دو صحیح حدیثوں میں تعارض اور تضاد محسوس ہوتا ہو وہ ہمارے پاس لے آئے ہم ان میں تطبیق دے دیں گے۔اللہ اکبر! یہ ہیں ہمارے اسلاف محدثین۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1851
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2830
´محرم جب شکار کی طرف اشارہ کرے اور غیر محرم شکار کرے تو کیا حکم ہے؟`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے حلال ہے جب تک کہ تم خود شکار نہ کرو، یا تمہارے لیے شکار نہ کیا جائے۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس حدیث میں «عمرو بن ابی عمرو» قوی نہیں ہیں، گو امام مالک نے ان سے روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2830]
اردو حاشہ:
(1) نبیﷺ کا یہ فرمان محرمین کے لیے ہے۔ خشکی کی قید اس لیے لگائی کہ سمندری شکار قرآن کی رو سے متفقہ طور پر محرم کے لیے بھی کرنا جائز ہے اور کھانا بھی، البتہ خشکی کا شکار محرم نہ خود کر سکتا ہے اور نہ کسی سے اس سلسلے میں تعاون کر سکتا ہے، ہاں کسی حلال شخص نے اپنے لیے شکار کیا ہو، پھر وہ اس سے محرم کو تحفہ دے دے تو وہ کھا سکتا ہے، نیز اگر اس نے شکار محرم کے لیے کیا ہو تو محرم کے لیے وہ کھانا بھی جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2821)
(2) امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ایک راوی عمرو بن ابی عمرو کو ضعیف کہا ہے مگر کثیر محدثین نے اسے قوی کہا ہے حتیٰ کہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ تو اس کی حدیثیں اپنی صحیحین میں لائے ہیں، لہٰذا یہ راوی ثقہ ہے۔ لیکن دوسری وجوہ سے یہ روایت ضعیف ہے، جس کی صراحت تخریج میں ہے، تاہم مسئلہ صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2830
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 846
´محرم شکار کا گوشت کھائے اس کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 846]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمرو بن ابی عمرو ضعیف ہیں،
لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 846