Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
24. باب فِي الإِقْرَانِ
باب: حج قران کا بیان۔
حدیث نمبر: 1800
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَهُوَ بِالْعَقِيقِ، وَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقَالَ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ" وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَا رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ:" وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبرائیل) آیا (آپ اس وقت وادی عقیق ۱؎ میں تھے) اور کہنے لگا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، اور کہا: عمرہ حج میں شامل ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ «وقل عمرة في حجة» (کہو! عمرہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے «وقل عمرة في حجة» کا جملہ نقل ۲؎ کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 16 (1534)، سنن ابن ماجہ/المناسک 40 (2976)، (تحفة الأشراف: 10513)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/24) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عقيق: مدینہ سے چار میل کی دوری پر ایک وادی ہے، اور اب شہر میں داخل ہے۔
۲؎: یہ جملہ احادیث میں تین طرح سے وارد ہوا ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے «قال عمرة في حجة» ماضی کے صیغہ کے ساتھ، اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں «وقل عمرة في حجة» امر کے صیغہ کے ساتھ، اور بخاری کی روایت میں «وقل عمرة في حجة» ہے «عمرة» اور «حجة» کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ وقل عمرة في حجة وهو الأولى

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1534)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1800 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1800  
1800. اردو حاشیہ: وادی عقیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے اور ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1800   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2976  
´حج تمتع کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2976]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آنے والے سے مراد فرشتہ ہے جس نے آ کر بتایا کہ حج کے ساتھ عمرے کی نیت بھی کر لیجیے۔

(2)
حج میں عمرہ داخل ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا جائز ہے۔
جب کہ اہل عرب اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ حج قران میں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی احرام ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
یعنی حج کے اعمال ادا کرنے سے عمرے کے اعمال خود بخود ادا شدہ سمجھے جائیں گے۔
واللہ اعلم۔

(3)
وادی عتیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2976   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:19  
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وادی عقیق میں موجود تھے۔ گزشتہ رات میرے پروردگار کا فرستادہ میرے پاس آیا اور بولا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک وادی میں نماز ادا کیجئے اور یہ کہیے عمرہ، حج میں ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ساتھ عمرہ کرنے کا بھی تلبیہ پرھئے)۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:19]
فائدہ:
وادی عقیق کو مبارک کہا گیا ہے۔
یہ وادی مدینہ منورہ کے قریب چھ میل کے فاصلے پر بقیع کے قریب واقع ہے اور ذوالحلیفہ کے پاس ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی واضح بیان ہے کہ قرآن کریم کی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی ہے۔ «عمرة فى حجة» کے دو مفہوم ہیں۔
➊ حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کر لیں، یعنی حج قران کر لیں، حج قران میں حج اور عمرہ کے لیے ایک ہی احرام، ایک ہی طواف اور ایک ہی رمی کافی ہے، یعنی حج کے ارکان ادا کرنے سے عمرے کے تمام ارکان خود بخود ادا شدہ سمجھے جائیں گے، واللہ اعلم۔
➋ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا جائز ہے، جبکہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اس باطل بات کی تردید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے فرمائی۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 19   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1534  
1534. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو وادی عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا: آج رات میرے رب کی جانب سے ایک آنے والا آیا اور کہنے لگا کہ اس بابرکت وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ میں نے حج کے ساتھ عمرے کی بھی نیت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1534]
حدیث حاشیہ:
ایام حج میں عمرہ عہدجاہلیت میں سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
اسلام نے اس غلط خیال کی بھی اصلاح کی اور اعلان کرایا کہ اب ایام حج میں عمرہ داخل ہوگیا۔
یعنی جاہلیت کا خیال باطل ہوا۔
ایام حج میں عمرہ کیاجاسکتاہے۔
اسی ليے تمتع کو افضل قرادیا گیا کہ اس میں حاجی پہلے عمرہ کر کے جاہلیت کی رسم کی بیج کنی کرتا ہے۔
پھر اس میں جو آسانیاں ہیں کہ یوم ترویہ تک احرام کھول کر آزادی مل جاتی ہے۔
یہ آسانی بھی اسلام کو مطلوب ہے۔
اسی ليے تمتع حج کی بہترین صورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1534   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2337  
2337. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ وادی عقیق میں تھے تو آپ نے فرمایا: آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: آپ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور فرمائیں کہ عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2337]
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ اس مسئلہ کو مزید واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنجر اور غیر آباد زمین پر جو کسی کی بھی ملکیت نہ ہو، ہل چلانے والا اس کا مالک بن جاتا ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے وادی عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔
اس لیے یہ وادی رسول کریم ﷺ کے قیام کرنے کی جگہ بن گئی، بالکل اسی طرح غیر آباد اور ناملکیت زمین کا آباد کرنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے۔
آج کل چونکہ زمین کا چپہ چپہ ہر ملک کی حکومت کی ملکیت مانا گیا ہے اس لیے ایسی زمینات کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2337   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7343  
7343. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے نبی ﷺ نے بیان فرمایا: آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا جبکہ میں وادی عقیق میں تھا۔ اس نے کہا: آپ اس بابرکت وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت کرتا ہوں۔ ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7343]
حدیث حاشیہ:
عقیق ایک میدان ہے جو مدینہ کے پاس آپ ہجرت کے نویں سال حج کو چلے جب اس میدان میں پہنچے جس کا نام عیق تھا تو آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔
حدیث مبارک وادی کا ذکر ہے۔
یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7343   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1534  
1534. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو وادی عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا: آج رات میرے رب کی جانب سے ایک آنے والا آیا اور کہنے لگا کہ اس بابرکت وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ میں نے حج کے ساتھ عمرے کی بھی نیت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1534]
حدیث حاشیہ:
(1)
وادی عقیق مدینہ منورہ سے چھ میل کے فاصلے پر بقیع کے قریب ہے۔
کہتے ہیں کہ یمن کا بادشاہ تُبع جب مدینہ منورہ سے واپس ہوا تو اس وادی میں پڑاؤ کیا۔
اس کی زرخیزی، شادابی اور محل وقوع کو دیکھ کر کہنے لگا:
یہ تو کرہ ارض کا عقیق معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت سے اس کا نام وادی عقیق ہے۔
(2)
واضح رہے کہ عقیق نامی ایک وادی مکہ مکرمہ میں بھی ہے لیکن اس سے مراد وہ وادی ہے جو مدینہ منورہ میں ذوالحلیفہ کے پاس ہے۔
(3)
ایام حج میں عمرہ کرنا قبل از اسلام سخت معیوب خیال کیا جاتا تھا۔
اسلام نے اس غلط خیال کی اصلاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایام حج میں عمرہ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ افضل ہے جیسا کہ حج تمتع اور حج قران میں کیا جاتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1534   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2337  
2337. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ وادی عقیق میں تھے تو آپ نے فرمایا: آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: آپ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور فرمائیں کہ عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2337]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس باب کا کوئی عنوان نہیں ہے گویا یہ پہلے باب کا تکملہ ہے۔
پہلے باب سے اس کی مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کی زمین کے متعلق حکم نہیں دیا کہ جو کوئی اسے آباد کرے گا تو وہ اس کی ملک ہو گی کیونکہ ذوالحلیفہ لوگوں کے پڑاؤ کی جگہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو غیر آباد جگہ کسی اجتماعی مفاد کے لیے ہو وہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی وہاں ہر شخص پڑاؤ کر سکتا ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے وادئ عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہیں تھی، آپ کے قیام کرنے سے وہ عام لوگوں کے لیے پڑاؤ کا مقام بن گئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2337   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7343  
7343. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے نبی ﷺ نے بیان فرمایا: آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا جبکہ میں وادی عقیق میں تھا۔ اس نے کہا: آپ اس بابرکت وادی میں نماز پڑھیں اور کہیں کہ میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت کرتا ہوں۔ ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7343]
حدیث حاشیہ:

وادی عقیق مدینے کے عین مغرب سے گزرتی ہے۔
یہ وادی مدینے سے تقریباً 140 کلو میٹر جنوب میں جبال قدس اور حرۃ المجاز سے پانی لیتی ہے۔
ذوالحلیفہ سے آگے یہ وادی عقیق کہلاتی ہے۔
اس وادی اور مدینے کے درمیان حرۃ ابوبرہ حال ہے۔
یہ شمال کی طرف وادی المحض (اضم)
سے جا ملتی ہے۔
مدینے کے جنوب میں کوہ عیر وادی عقیق کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کے نویں سال حج کے لیے تشریف لے گئے تو اس میدان میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی۔
اس حدیث میں وادی عقیق کے مبارک ہونے کا ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7343