Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
4. بَابُ فَضْلِ الْحَجِّ الْمَبْرُورِ:
باب: حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1520
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، أَخْبَرَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ، أَفَلَا نُجَاهِدُ؟، قَالَ: لَا، لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ".
ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حبیب بن ابی عمرہ نے خبر دی، انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد سب نیک کاموں سے بڑھ کر ہے۔ پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سب سے افضل جہاد حج ہے جو مبرور ہو۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1520 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1520  
حدیث حاشیہ:
مبرور کے معنی مقبول ہیں، اس لیے حج مبرور سے وہ حج مراد ہے جو اللہ کے ہاں شرف قبولیت سے ہمکنار ہو۔
اللہ کے ہاں وہی حج قبول ہوتا ہے جو خالص اللہ کی رضا جوئی کےلیے کیا جائے، اس میں نمود نمائش کا شائبہ تک نہ ہو اور اس دوران میں کسی گناہ کا بھی ارتکاب نہ ہو۔
مگر افسوس کہ آج کی مادی ترقیوں نے انسان کے اخلاق واعمال کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، بیشتر حجاج کرام حج سے فراغت کے بعد جائزو ناجائز سے بالا تر ایسی ایسی چیزیں خرید لاتے ہیں جو ہمیشہ کےلیے گناہ کی زندگی کا باعث بن جاتی ہیں اور حاجی کے لفظ کو اپنے نام کا لاحقہ بنا کر لوگوں کو خوب لوٹنے کا بہانہ میسر آجاتا ہے۔
العياذ بالله
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1520