سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
46. باب فِي صِلَةِ الرَّحِمِ
باب: رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1697
حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، وَفِطْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ سُفْيَانُ: وَلَمْ يَرْفَعْهُ سُلَيْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَفَعَهُ فِطْرٌ وَ الْحَسَنُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنْ هُوَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشتہ ناتا جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلے میں ناتا جوڑے بلکہ ناتا جوڑنے والا وہ ہے کہ جب ناتا توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 15 (5991)، سنن الترمذی/البر والصلة 10 (1908)، (تحفة الأشراف:8915)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/163، 190، 193) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5991)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1697 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1697
1697. اردو حاشیہ: محض ادلے بدلے میں اجر نہیں۔لیکن اگر للہ فی اللہ بدلہ دے۔تو ان شاء اللہ ماجور اور فضیلت کا کام ہے <قرآن>۔(هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ)(الرحمٰن۔60) اور صلہ رحمی پر جس اجر فضیلت کا وعدہ کیا گیا ہے۔وہ اس صورت میں ہے کہ جب بندہ جب بنیادی طور پر اللہ پر ایمان اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل سے موصوف ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1697
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1908
´صلہ رحمی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے ۱؎، بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ ناتا توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1908]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی صلہ رحمی کی جائے تو صلہ رحمی کرے اور قطع رحمی کیاجائے تو قطع رحمی کرے،
یہ کوئی صلہ رحمی نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1908
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:605
605- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہوتا۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے، جب اس کے رشتے کے حق کو پامال کیا جائے تو وہ اس وقت رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:605]
فائدہ:
اس حدیث میں صلۂ رحمی کی تعریف کی گئی ہے کہ صیح معنوں میں صلۂ رحمی اس کو کہتے ہیں کہ کوئی آپ کی مخالفت کرے اور آپ اس کے ساتھ صلۂ رحمی کریں۔ انتقام نہ لیا جائے، بدلہ نہ لیا جائے، مخالفت کی وجہ سے جنگ و جدل کا میدان گرم نہ کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ نرمی والا معاملہ کیا جائے۔ اللہ کی قسم! اس کی وجہ سے مخالف کی تمام سازشیں ناکام ہو جائیں گی اور وہ آپ کا حقیقی دوست بن جائے گا، ان شاء اللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 605
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5991
5991. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے کہ جب اس کےساتھ صلہ رحمی والا ختم کر دیا جائے وہ پھر بھی صلہ کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5991]
حدیث حاشیہ:
کمال اس کا نام جو حدیث میں مذکور ہوا۔
رشتہ دار اگر نہ ملے تو تم اس سے ملنے میں سبقت کرو بعد میں وہ تمہارا ولی حمیم گاڑھا دوست بن جائے گا جیسے کہ تجربہ شاہد ہے۔
حضرت اعمش بن سلیمان سنہ60 ھ میں سر زمین رے میں پیدا ہوئے پھر کوفے میں لائے گئے علم حدیث میں بہت مشہور ہیں۔
اکثر کوفیوں کی روایت کامدار ان ہی پر ہے۔
سنہ128ھ میں فوت ہوئے۔
رحمه اللہ تعالیٰ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5991
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5991
5991. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے کہ جب اس کےساتھ صلہ رحمی والا ختم کر دیا جائے وہ پھر بھی صلہ کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5991]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ بدلہ دینا بھی صلہ رحمی کی ہی قسم ہے، تاہم کامل صلہ رحمی یہی ہے کہ رشتے دار اگر نہ بھی ملے پھر بھی اس کے ساتھ رحم کا تعلق قائم رکھا جائے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دشمن بھی گہرا دوست بن جاتا ہے لیکن ایسا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں بلکہ ایسا کام تو بہت بڑے حوصلے والا کرسکتا ہے ہاں اگر کوئی رشتے دار صلہ رحمی کرتا ہے لیکن اس کا بدلہ نہ دینا بلکہ قطع رحمی پر جمے رہنا بہت سنگین جرم ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5991