صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
3. بَابُ الْحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ:
باب: پالان پر سوار ہو کر حج کرنا۔
حدیث نمبر: 1517
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ:" حَجَّ أَنَسٌ عَلَى رَحْلٍ وَلَمْ يَكُنْ شَحِيحًا، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ عَلَى رَحْلٍ وَكَانَتْ زَامِلَتَهُ".
محمد بن ابی بکر نے بیان کیا کہ ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عزرہ بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ایک پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1517 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1517
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ حج میں تکلف کرنا اور آرام کی سواری ڈھونڈناسنت کے خلاف ہے۔
سادے پالان پر چڑھنا کافی ہے۔
شغدف اور محمل اور عمدہ کجاوے اور گدے اور تکیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔
عبادت میں جس قدر مشقت ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔
(وحیدی)
یہ باتیں آج کے سفر حج میں خواب وخیال بن کر رہ گئی ہیں۔
اب ہر جگہ موٹرکار، ہوائی جہاز دوڑتے پھر رہے ہیں۔
حج کا مبارک سفر بھی ریل، دخانی جہاز، موٹر کار اور ہوائی جہازوں سے ہورہا ہے۔
پھر زیادہ سے زیادہ آرام ہر ہر قدم پر موجود ہے۔
ان تکلّفات کے ساتھ حج اس حدیث کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آخرزمانہ میں سفر حج بھی ایک تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔
لیکن سنت کے شیدائی ان حالات میں بھی چاہیں تو سادگی کے ساتھ یہ مبارک سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر خدا ترسی سنت شعاری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔
مکہ شریف سے پیدل چلنے کی اجازت ہے۔
حکومت مجبور نہیں کرتی کہ ہر شخص موٹر ہی کا سفر کرے مگر آرام طلبی کی دنیا میں یہ سب باتیں دقیانوسی سمجھی جانے لگی۔
بہرحال حقیقت ہے کہ سفر حج جہاد سے کم نہیں ہے بشرطیکہ حقیقی حج نصیب ہو۔
لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا جو حالت سفر میں علیحدہ سامان اسباب اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھانے کے لئے استعمال میں آتا تھا، یہاں راوی کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ سفر مبارک اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ سے سواری اور سامان اٹھانا ہر دو کام لے لئے گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1517
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1517
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث مین بھی سفر حج کی سادگی کا بیان ہے کہ حضرت انس ؓ الله کے فضل سے صاحب ثروت تھے اور بخل وکنجوسی سے کوسوں دور رہتے تھے۔
انھوں نے سفر حج کے لیے آرام دہ سواری کا اہتمام نہیں کیا بلکہ سادہ سواری پر سادہ پالان رکھا، اس پر حج مکمل کیا، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سفر حج کا حوالہ دیا کہ آپ نے اسی انداز سے حج کیا تھا، اور جس اونٹنی پر سوار تھے اسی پر سفر خرچ اور زادِراہ لادا ہواتھا، اس کے لیے کسی الگ سواری کا اہتمام نہیں کیا۔
(2)
لفظ زاملہ ایسے اونٹ پر بولا جاتا ہے جو حالتِ سفر سامان واسباب اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھانے کے لیے استعمال ہو۔
حضرت انس ؓ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سفر اس قدر سادگی سے کیا کہ ایک ہی اونٹ پر سواری کی اور اسی پر اپنا سامان وغیرہ لادلیا، اس کے لیے الگ اونٹ کا اہتمام نہیں کیا۔
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ اس وقت لوگ سفر حج پر روانہ ہوتے تو اسی سواری پر اپنا سامان وغیرہ لاد لیتے تھے، حضرت عثمان ؓ نے سامان کے لیے اونٹ کا اہتمام کیا۔
(فتح الباري: 480/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1517