سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
40. باب الرَّجُلِ يَخْرُجُ مِنْ مَالِهِ
باب: اگر آدمی اپنا پورا مال صدقہ کر دے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1674
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِإِسْنَادِهِ، وَمَعْنَاهُ، زَادَ:" خُذْ عَنَّا مَالَكَ لَا حَاجَةَ لَنَا بِهِ".
اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: «خذ عنا مالك لا حاجة لنا به» ”اپنا مال ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت نہیں“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:3097) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن إسحاق عنعن
وانظر الحديث السابق (1673)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 67
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1674 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1674
1674. اردو حاشیہ: ایسا صدقہ یا کوئی نیکی جو جذبات میں آکر کی جائے۔ مگر اس کے ظاہری اثرات اس کے کرنے والے کی برداشت سے باہر ہوں۔ کہ بعد میں اس پرافسوس کرنے لگے۔ یا وہ نیکی ہی اسے بُری لگنے لگے۔ تو یہ بہت بُری کیفیت ہے۔ انسان کو پہلے سوچ کر قدم اُٹھانا چاہیے۔ بالخصوص صدقات کے معاملہ میں اور کچھ نام نہاد صوفیاء میں یہ بات موجود ہے۔ کہ پہلے اپنا سب کچھ لنگر میں دے دیتے ہیں۔ پھر لوگوں سے بٹورنا شروع کردیتے ہیں۔ <عربی> ولا حول ولا قوۃالا باللہ۔مگرایسے مخلصین جو اللہ پر کامل توکل رکھتے ہوں۔ انہیں کسی ملال کا اندیشہ نہ ہو تو ان کے لئے اپنا تمام مال صدقہ کردینے کی رخصت بھی ہے۔ جیسے کے اگلے باب میں آرہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1674