سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
12. باب صَدَقَةِ الزَّرْعِ
باب: کھیتوں میں پیدا ہونے والی چیزوں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1599
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:" خُذْ الْحَبَّ مِنَ الْحَبِّ وَالشَّاةَ، مِنَ الْغَنَمِ وَالْبَعِيرَ، مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرَةَ، مِنَ الْبَقَرِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: شَبَرْتُ قِثَّاءَةً بِمِصْرَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ شِبْرًا، وَرَأَيْتُ أُتْرُجَّةً عَلَى بَعِيرٍ بِقِطْعَتَيْنِ قُطِّعَتْ، وَصُيِّرَتْ عَلَى مِثْلِ عِدْلَيْنِ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا تو فرمایا: ”غلہ میں سے غلہ لو، بکریوں میں سے بکری، اونٹوں میں سے اونٹ اور گایوں میں سے گائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے مصر میں ایک ککڑی کو بالشت سے ناپا تو وہ تیرہ بالشت کی تھی اور ایک سنترہ دیکھا جو ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا، اس کے دو ٹکڑے کاٹ کر دو بوجھ کے مثل کر دیئے گئے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 12 (1814)، (تحفة الأشراف:11348) (ضعیف)» (اس کے راوی شریک کے اندر کلام ہے)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ مال کی زکاۃ اسی کے جنس سے ہو گی بصورت مجبوری اس کی قیمت بھی زکاۃ میں دی جا سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1814)
عطاء بن يسار لم يلق معاذ بن جبل رضي اللّٰه عنه،انظر تلخيص المستدرك (388/1) بل ولد بعد وفاته
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 64
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1599 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1599
1599. اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بارانی اور چشموں سے سیراب ہونے والی زمین اس طرح زیر زمین نمی والی زمین کی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) ہے۔ اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ پانچ فیصد) ہے۔ [صحیح بخاری، الزکاة، باب العشر فیما یسقیٰ من ماء السماء و لماء الجاري۔ حدیث: 1483]
قرآنی آیت اور حدیث رسول ﷺ دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز میں زکواۃ ہے۔ سوائے سبزیوں کے کیونکہ اس میں زکواۃ نہ نکالنے کی صراحت حدیث میں ہے۔ البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ پیداوار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو۔ گویا اناج اور غلے کا نصاب پانچ وسق ہے۔ اس سے کم پیداوار میں زکواۃ عائد نہیں ہوگی۔ ایک وسق۔ ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اس طرح پانچ وسق میں تین سو صاع ہوں گے جن کا وزن پاکستانی حساب سے تقریبا 20 من بنتا ہے۔ لہذا جس شخص کی پیداوار 20 من یا اس سےزائد تو وہ زکواۃ ادا کرے۔ بصورت دیگر نہیں۔زمین کی پیداوار کی زکواۃ (عشر) کی ادایئگی فصل کاٹنے کے موقع پر ہوگی۔ اگر سال میں دو فصلیں ہوں گی۔ توعشر بھی دو مرتبہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے۔ وہ جب بھی ہو اور جو بھی ہو۔ اگرزمین بارانی ہے یعنی بارش قدرتی چشموں وغیرہ سے سیراب ہوتی ہے۔ اور اس پر اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ (عشر) ادا کیا جائے۔ اگر زمین غیر بارانی ہے (چاہی یا نہری ہے جس کی سیرابی پرآبیانہ وغیرہ کی صورت میں اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یا ٹیوب ویل کے ذریعے سے اسے سیراب کیا جاتا ہے) تو اس سے نصف العشر (بیسواں حصہ) اد کیا جائے گا۔ اس کی بنیاد یہ حدیث ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (فيما سقتِ السماءُ والعيونُ أو كان عشريا العشر و ما سُقِيَ بالنضحِ نصفُ العشرِ [صحيح البخاري، الزکوة، العشر فیما یسقی من ماء السماء والما ء الجاري، حدیث: 1483]
اس پیدوار میں جسے آسمان (بارش) یا (قدرتی) چشمے سیراب کریں یا وہ زمین نمی والی ہو۔ (نہر اور دریا کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس میں اتنی نمی رہی ہو کہ اسے پانی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے) عشر (دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول (یارہٹ وغیرہ) سے سیراب کیا جائے۔ اس میں نصف عشر(بیسواں حصہ یعنی پانچ فیصد) ہے۔ زکوة صرف اس پیداوار سے ادا کی جائے گی۔ جو ذخیرہ کی جا سکتی ہو۔ جیسے گندم چاول مکئی جو وغیرہ۔ اس لیے سبزیوں پر زکوۃ نہیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ دیر تک ذخیرہ ممکن نہیں۔
➋ امام صاحب نے جو ککڑی اور ترنج (مالٹے) کے بارے میں فرمایا ہے تو یہ زکوۃ صدقات کی برکات کی طرف اشار ہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس سے مال میں بے انتہا برکت ڈال دیتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1599