Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1584
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:" إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، ان کو اس بات کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی، پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو تم ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، 41 (1458)، 63 (1496)، المظالم 9 (2448)، المغازي 60 (4347)، التوحید 1 (7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن الترمذی/الزکاة 6 (625)، والبر والصلة 68 (2014)، سنن النسائی/الزکاة 1 (2437)، 46 (2523)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783)، (تحفة الأشراف:6511)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/233)، سنن الدارمی/الزکاة 1 (1655) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2448) صحيح مسلم (19)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1584 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1584  
1584. اردو حاشیہ:
➊ تبلیغ دین میں تدریج ہے جس کی اولین بنیاد شہادت توحید و رسالت ہے، اس کے بعد دیگر احکام ہیں، مگر خیال رہے کہ اس لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرنی ضروری ہے۔
➋ کفار پر مسلمانوں کے دینی احکام کی تنفیذ ضروری نہیں، بلکہ ان سے پہلے تو حید ورسالت کے اقرار کا مطالبہ ہے۔
➌ عام فقہاء کی رائے یہی ہے کہ کسی جگہ کے مسلمانوں کا مال اسی جگہ کے مسلمانوں پر خرچ ہونا چاہیے۔
➍ تقسیم زکوۃ میں اول حق قریبی لوگوں اور ہمسایوں کا ہے اور اسے اہم ضرورت کے بغیر دوسرے شہروں میں منتقل نہیں کرنا چاہیے۔
➎ مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1584   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1395  
´دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ " . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ: 1395]
لغوی توضیح:
«تَوَقَّ» بچو۔
«كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ» لوگوں کے عمدہ اموال
«كَرَائِم» جمع ہے «كَرِيْمَة» کی، مراد نفیس اور عمدہ مال ہے۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے سب سے ضروری چیز یعنی توحید اور دیگر ایمانیات کی دعوت دی جائے اور پھر نماز و زکوٰۃ کی۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1496  
´مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور فقراء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں`
«. . . أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ . . .»
. . . اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1496]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے ترجمۃ الباب میں یہ ثابت فرمایا کہ امیروں سے زکوٰۃ وصول کر کے اسے کہیں بھی فقراء پر خرچ کیا جا سکتا ہے حالانکہ حدیث جو پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ اغنیاء سے مال لیا جائے اور وہیں کے فقراء میں تقسیم کر دیا جائے۔ حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام عبداللہ بن سالم ابصری رحمہ الله فرماتے ہیں۔
«قال الإسماعيلي: ظاهر حديث الباب أن الصدقة تردّ على فقراء من اخذت من أغنيائهم» [ضياء الساري، ج12، ص9]
حدیث باب سے ظاہر ہے کہ صدقہ وہیں لوٹایا جائے جہاں کے اغنیاء سے لیا جائے۔
ابن المنیر فرماتے ہیں:
«اختار البخاري جواز نقل الزكوٰة من بلد المال لعموم قوله فتردّ على فقرائهم لأن ضمير يعود للمسلمين فأي فقير منهم ردت فيه الصدقة فى أى جهة كان فقد وافق عموم الحديث .» [ضياء الساري، ج12، ص9]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مسئلہ اختیار فرمایا ہے کہ اس میں جواز ہے کہ زکوٰۃ کی نقل مکانی کی جائے کیوں کہ یہ عموم ہے کہ محتاجوں کی طرف اس مال کو لوٹایا جائے (امام بخاری رحمہ اللہ نے) ضمیر «فترد عليٰ فقرائهم» سے مراد «للمسلمين» یعنی مسلمانوں کی طرف لوٹایا ہے یعنی فقیر مسلمان کہیں بھی ہوں اُن تک وہ حصہ لوٹایا جائے۔
محدث الکبیر مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر عندي عدم النقل الا فقد المستحقون لها أو تكون فى النقل مصلحة انفع وأهم من عدمه والله تعالىٰ اعلم» [مرعاة، ج3، ص4]
یعنی میرے نزدیک یہ ظاہر ہے کہ مال کو دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے مگر مستحق لوگ مقصود ہوں یا پھر نقل میں کوئی مصلحت ہو
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ نقل مکانی زکوٰۃ کی درست ہے وہ اس امر کو بغیر مشروط کے قبول فرماتے ہیں جیسا کہ باب سے واضح ہے اور عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ اسے مشروط گردانتے ہیں، مگر نقل مکانی زکوٰۃ میں ہم آہنگی موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے علامہ قاضی شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب [السيل الجرار، ج1، ص832] [فقه الزكاة للقرضاوي، ج2، ص 809۔ 820 الفصل الرابع: نقل الزكاة إلى غير بلد المال]
لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوئی کہ کیا زکوٰۃ کی نقل مکانی درست ہو گی؟ تو جواز اس کی ممانعت پر ہے، یہ بھی کہا گیا کہ جب سخت ضرورت ہو دوسرے شہر میں زکوٰۃ کی تو نقل مکانی بھی درست ہو گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مطلق جواز کو اختیار فرمایا ہے کہ زکوٰۃ فقیروں کو دی جائے سے مراد ہر وہ ضرورت مند ہیں جو مسلمان ہوں۔
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا فرمان «حيث كانوا» (خواہ وہ کہیں بھی ہوں) ظاہر یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا غرض بیان امتناع کا ہے۔
یعنی جہاں کے امیروں سے وصول کیا جائے وہیں کے فقراء میں تقسیم ہو الا یہ کہ نقل مکانی کرنا جائز ہو (یعنی دوسری جگہ زیادہ مسلمان محتاج اور فقراء ہوں)۔ [شرح الكرماني، ج8، ص39]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«اصل الخلاف فى أن الشراح الشافعية مالوا إلى أن مرجع ضمير حيث كانوا الأغنياء والشراح الحنفية مالوا إلى أن المرجع الفقراء» [الأبواب والتراجم لصحيح البخاري، ج3، ص292]
اصل اختلاف یہ ہے کہ وہ شارحین جو شافعیہ ہیں انہوں نے «حيث كانوا» کی ضمیر مالداروں کی طرف کی ہے اور وہ شارحین جو حنفیہ ہیں انہوں نے اس کی ضمیر محتاجوں کی طرف کی ہے۔
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ نظر آتا ہے کہ مسلمان فقراء جہاں بھی ہوں ان تک مال کو پہنچایا جائے۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت ہے۔ مزید دیکھئے: [المتواري على أبواب البخاري، ص123]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 279   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 483  
´زکاۃ کی وصولی اور اس کے مصارف کا سرکاری سطح پر انتظام`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا، پھر ساری حدیث بیان کی جس میں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، جو ان کے مالداروں سے وصول کی جائے اور انہیں کے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی جائے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 483]
لغوی تشریح:
«كِتَابُ الزَّكَاهِ» لغت میں «زكاة»، زیادہ کرنے اور پاکیزہ کرنے کو کہتے ہیں۔ «زكاة» کو بھی اسی لیے یہ نام دیا گیا ہے کہ یہ مال کو پاکیزہ بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے اور زکاۃ دینے والے کے مال میں اضافہ کرتی ہے، نیز اس کے اجر و ثواب کو بھی بڑھاتی ہے۔ اس کی تاریخ فرضیت میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ یہ ۲ ہجری میں رمضان کی فرضیت سے پہلے فرض ہوئی، اور بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ فرض تو مکہ ہی میں ہو گئی تھی مگر اس کے تفصیلی احکام مدینہ منورہ میں ۲ ہجری کو نازل ہوئے۔
«بَعَثَ مُعَاذَا إلَي الْيَمَنِ» آپ نے ۱۰ ہجری میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو قاضی یا عامل بنا کر اہل یمن کی طرف روانہ فرمایا۔ اور ایک قول کے مطابق ۹ ہجری کے آخر میں۔ اور ایک تیسرے قول کے مطابق ۸ ہجری میں بھیجا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک یمن ہی میں رہے۔ پھر واپس آئے اور شام کا رخ کیا اور طاعون عمواس میں وفات پائی۔
«فَذَكَرْ الْحَدِيثَ» اس لمبی حدیث میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت تھی کہ وہ اہل یمن کے ساتھ کیا سلوک کریں؟
«اِفْتَرَضَ» فرض اور واجب کی ہے۔
«فَتُردُّ» اس میں فا تعقیب کے لیے ہے، یعنی وصول کرنے کے بعد غرباء میں تقسیم کر دی جائے۔ «رَدّ» سے ماخوذ صیغہ مجہول ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد باسعادت سے زکاۃ کی وصولی اور اس کے مصارف کا سرکاری سطح پر انتظام ہو گیا تھا۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں سے زکاۃ حاصل کی جائے گی وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی جائے گی، البتہ اگر مقامی فقراء سے بچ جائے تو پھر دوسرے علاقوں میں زکاۃ کی جا سکتی ہے۔
➌ زکاۃ ادا کرنا صاحب نصاب لوگوں پر فرض ہے اور مستحق لوگوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اسے ادا کرنے کے ساتھ کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اپنا فرض نبھایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح یہ زکاۃ کا مال غرباء کا حق ہے۔ وہ اپنا حق وصول کرتے ہیں، کسی کا احسان نہیں اٹھاتے۔ جس طرح کہ نماز اور روزہ ادا کرنا انسان کی ذمہ داری ہے اور اللہ کا حق ہے، ان کی ادائیگی سے نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا اللہ پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اللہ کا حق ادا کرتا ہے، اسی طرح زکاۃ غرباء کا حق ہے جسے ان تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہوتا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 483   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2437  
´زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا: تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2437]
اردو حاشہ:
(1) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یمن جانا 9 یا 10 ہجری کی بات ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک وہ وہیں رہے۔
(2) اہل کتاب یمن میں یہودیوں کی بڑی تعداد بستی تھی۔
(3) اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں۔ شریعت کے تمام احکام اسلام لانے کے ساتھ ہی لاگو ہو جاتے ہیں مگر نماز دن رات میں پانچ مرتبہ فرض ہے جبکہ زکاۃ سالانہ فرض ہے، اس لیے یوں فرمایا۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو اس پر زکاۃ فرض نہیں۔
(4) انھی کے محتاج زکاۃ کے اولین حق دار اسی علاقے کے لوگ ہیں الا یہ کہ زکاۃ زائد ہو یا دوسرے لوگ ان سے زیادہ محتاج ہوں۔
(5) کافر کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔
(6) بچے اور مجنون کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے کیونکہ حدیث عام ہے، تمام مسلمان اغنیاء کو شامل ہے۔
(7) مظلوم کی بددعا سے بچنا۔ یعنی کسی پر ظلم نہ کرنا کیونکہ مظلوم بددعا کرے گا اور اس کی بددعا ضرور قبول ہوتی ہے، چاہے وہ خود گناہ گار ہی ہو۔ گویا ظلم سب سے بڑا گناہ ہے جو دوسرے گناہوں کو مات کر دیتا ہے۔
(8) اس روایت میں حج اور روزے کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے کسی راوی نے مختصر کر دیا ہو یا انتہائی اہم ارکان بیان کر دیے گئے ہوں۔ نماز کے بغیر اسلام قبول نہیں۔ زکاۃ دینے سے اسلامی حکومت کی اطاعت ثابت ہوتی ہے۔ حج اور روزے کا یہ مقام نہیں کیونکہ وہ شخصی عبادات ہیں۔ قرآن مجید سے بھی تائید ہوتی ہے: ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾  (التوبة:9: 5) پھر اگر کافر (اپنے دین سے) توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ دینے لگ جائیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (انھیں کچھ نہ کہو)۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2437   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2523  
´ایک شہر کی زکاۃ دوسرے شہر میں بھیجنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انہیں اس بات کی گواہی کی دعوت دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ (وقت کی) نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو انہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2523]
اردو حاشہ:
اصل یہی ہے کہ زکاۃ کو اسی علاقے میں تقسیم کیا جائے الا یہ کہ وہ زائد ہو یا دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہوں۔ خصوصاً صدقۃ الفطر تو اپنے علاقے ہی میں تقسیم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس علاقے کے مستحقین کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہوگا، نیز یہ وقتی صدقہ ہے تاکہ فقراء بھی بے فکر ہو کر عید میں شامل ہو جائیں۔ بخلاف اس کے زکاۃ ایک مستقل فنڈ ہے اور اس کے مصارف بھی زیادہ ہیں، مثلاً: فی سبیل اللہ، لہٰذا اسے منتقل کرنا ہی پڑتا ہے۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 2437)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2523   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1783  
´زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب بھیجا، اور فرمایا: تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1783]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت معاویہ کو 10 ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے یمن کا گورنر مقرر کیا گیا۔
یمن کے ایک حصے کے گورنر حضرت معاذ بن جبل اور دوسرے حصے کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری تھے۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الی الیمن قبل حجة الوداع، حدیث: 4342، 4341)

(2)
اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں۔
اس زمانے میں یمن میں کثیر تعداد میں یہودی آباد تھے۔

(3)
غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے میں سب سے زیادہ اہمیت مسئلہ توحید کو حاصل ہے۔

(4)
توحید و رسالت کا اقرار اسلام میں داخلے کی بنیادی شرط ہے، اس کے بغیر کوئی شخص مسلمان شمار نہیں کیا جاسکتا۔

(5)
عبادات میں نماز اور زکاۃ سب سے اہم ہیں۔

(6)
زکاۃ مسلمانوں سے وصول کی جاتی ہے، غیر مسلموں سے زکاۃ کا متبادل ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ہر شخص کے حالات کے مطابق کم و بیش مقرر کیا جاتا ہے۔
اسے جزیہ کہتے ہیں۔

(7)
زکاۃ مسلمان مستحقین ہی میں تقسیم کی جاتی ہے۔
غیر مسلموں میں سے صرف اس غیر مسلم پر زکاۃ میں سے کچھ خرچ کیا جاسکتا ہے جس کے بارے میں یہ توقع ہو کہ اسے مسلمانوں سے قریب ہونے کا موقع ملا تو اسلام کی طرف راغب ہو جائے گا اور ممکن ہے وہ اسلام بھی قبول کرلے۔
ایسے لوگوں کو مؤلفۃ القلوب کہا جاتا ہے۔

(8)
جس علاقے کے مسلمانوں سے زکاۃ لی جائے، پہلے وہاں کے مستحق افراد میں تقسیم کرنی چاہیے۔
اگر ان کی ضروریات پوری کرنے کے بعد مال بچ جائے تو پھر دوسرے علاقے کے مسلمانوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے
(9)
زکاۃ میں اچھے اچھے جانور چن کر وصول نہ کیے جائیں اور نہ نکمے جانور لیے جائیں بلکہ درمیانے درجے کے جانور لیے جائیں
(10)
اسلام میں نئے داخل ہونے والے افراد کو آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی عادت ڈالی جائے۔
ایک ہی بار تمام احکام کا بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔

(11)
تبلیغ و تفہیم کے ذریعے سے کوشش کی جائے کہ عوام خوش دلی سے اسلام کے احکام پر عمل کریں اور ان کے دل اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے محبت سے ان پر عمل کریں۔

(12)
ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے رعایا کے حقوق عدل و انصاف سے ادا کرنا ہے۔

(13)
مظلوم کی بددعا سے بچنے کا مطلب ظلم سے پرہیز اور ظالم سے مظلوم کا حق دلوانا ہے کیونکہ جب مظلوم کو حاکم سے اپنا حق نہیں ملے گا تو اس کے دل سے بددعا نکلے گی۔

(14)
مظلوم کی بددعا جلد قبول ہوتی ہے، اسی طرح جب مظلوم کی داد رسی کر دی جائے اور وہ خوش ہو کر دعا دے تو وہ بھی جلد قبول ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1783   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 625  
´صدقے میں عمدہ مال لینے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی الله عنہ کو یمن (کی طرف اپنا عامل بنا کر) بھیجا اور ان سے فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 625]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے،
مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے،
بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے،
لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور ((فُقَرَائِهِمْ)) میں هم کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے،
خواہ وہ کہیں کا ہو۔

2؎:
صنابحی سے مراد صنابح بن اعسر احمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 625   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 121  
حضرت معاذ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا اور فرمایا: تم اہلِ کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جا رہے ہو تو انھیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کا مستحق نہیں اور میں (محمدﷺ) اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس بات کو مان لیں تو انھیں بتلانا اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو ان کو بتلانا اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:121]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شَرَائِع:
شَرِيْعَةٌ کی جمع ہے،
حکم،
قانون،
ضابطہ۔
(2)
أَغْنِيَاء:
غَنِيٌّ کی جمع ہے،
مالدار،
اصحاب ثروت و دولت۔
(3)
فُقَرَاء:
فقیر کی جمع ہے،
محتاج،
قلاش۔
(4)
كرائم:
كريمة کی جمع ہے نفیس،
عمدہ،
بہترین،
اموال مال کی جمع ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 121   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 123  
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت سناتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رضی اللہ عنہ) کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم اہلِ کتاب کے لوگوں کے پاس جاؤ گے، تو انھیں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ کی معرفت حاصل کر لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دن رات میں ان پرپانچ نمازیں فرض کی ہیں تو جب وہ اس کی تعمیل کر لیں تو انھیں بتلانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالوں سے لی جائے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:123]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو امام بخاری وغیرہ کی تحقیق کے مطابق 10 ہجری میں اور اکثر علمائے سیرت اور اہلِ مغازی کے نزدیک 9 ہجری میں یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔
(2)
دین کی تعلیم اور اسلام کی دعوت میں معلِّم اور داعی کو ترتیب اور تدریج کا لحاظ رکھنا چاہیے اورایک دم اسلام کے تمام احکام ومطالبات اور دینکے تمام اوامر ونواہی لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنے چاہیئں،
اہم فالاہم کی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
(3)
دین کی اساس وبنیاد،
توحید ورسالت ہے،
ا س لیے سب سےپہلے انہیں کی دعوت دی جائے گی۔
کیونکہ جب تک کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو تسلیم نہیں کرتا،
وہ رسول اور اس کے دین وشریعت کو کیسے قبول کرے گا؟ اللہ تعالیٰ کو الوہیت کے اقرار کے بعد ہی رسالت اور دین وشریعت کو قبول کرنے کا داعیہ پیدا ہوگا۔
(4)
توحید ورسالت کے اقرار کے بعد،
اسلام کے ارکان اور فرائض میں نماز اور زکاۃ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
اور قرآن مجید میں ان ہی دو پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے،
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت جو آگے آرہی ہے اس میں بھی ان دو کا تذکرہ ہے،
کیونکہ نماز تمام حقوق اللہ کی ادائیگی کی بنیاد ہے اور زکاۃ تمام حقوق العباد کی ادائیگی کی اساس ہے،
اس لیے جو انسان ان دو کی پابندی کرتا ہے اس کےلیے اسلام کے تمام ارکان وفرائض کا ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
(5)
زکاۃ کی وصولی کے وقت لوگوں کے اموال (پیداوار ہو یا حیوانات)
سے نفیس نفیس اور بہتر بہتر چیز نہیں لی جائے گی،
بلکہ درمیانی قسم کا مال وصول کیا جائے گا اور مسلمان ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
(6)
کسی پر ظلم وزیادتی کرنا انتہارئی حرام ہے،
مظلوم کی دعا کی قبولیت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی،
فسق وفجور کے ارتکاب کے باوجود مظلوم کی بد دعا قبول ہوتی ہے۔
(7)
رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ا ور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا،
آپ سےپہلے آنے والے انبیاء کے ماننے والے اہل کتاب کے لیے بھی ضرروی ہے،
اپنے سابقہ ادیان پر قائم رہنا ان کی نجات کےلیے کافی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 123   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1458  
1458. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن کا حاکم بنا کرروانہ کیا تو فرمایا:تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، سب سے پہلے تم نے انھیں اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دینی ہے، جب وہ اس بات سے آشنا ہو جائیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ ان پر عمل کرنے لگیں تو انھیں مطلع کرو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کی جائے گی، جب وہ اس کی اطاعت پر آمادہ ہو جائیں تو ان سے زکاۃ وصول کرو،اس سلسلے میں ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1458]
حدیث حاشیہ:
ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو۔
اس معنی کے تحت ایک ملک کی زکوٰۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا نا جائز قرار دیا گیا ہے۔
مگر جمہورعلماءکہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراءہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں۔
اس معنی کے تحت زکوٰۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے۔
حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔
وقال شیخنا في شرح الترمذي والظاهر عندي عدم النقل إلا إذا فقد المستحقون لها أوتکون في النقل مصلحة أنفع وأهم عن عدمه واللہ تعالیٰ أعلم۔
(مرعاة)
یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوٰۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو یا بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو۔
ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوٰۃ نقل کی جاسکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1458   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1496  
1496. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا:تم ایک قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لاإلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس سلسلے میں تمہاری بات تسلیم کرلیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچو کیونکہ اس کی بد دعا اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1496]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں:
''قال الحافظ استدل به علی أن الإمام الذي یتولی قبض الزکوٰة وصوفها أما بنفسه وأما بنائبه فمن امتنع منها أخذت منه قهراً'' یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔
اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔
وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔
اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔
بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔
فإن أدی زکوٰتهما خفیة یجزء للہ۔
لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں:
والظاهر عندي أن ولایة أخذ الإمام ظاهرة وباطنة فإن لم یکن إمام فرقها المالك في مصارفها وقد حقق ذلك الشوکاني في السیل الجرار بما لا مزید علیه فلیرجع إلیه۔
یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔
اور اگر امام نہ ہو (جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں)
تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔
جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔
یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔
حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک:
ترد علی فقرآئهم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔
قال ابن المنیر اختار البخاري جواز نقل الزکوٰة من بلد المال لعموم قوله فترد في فقرائهم لأن الضمیر یعود للمسلمین فأي فقیر منهم ردت فیه الصدقة في أي جهة کان فقد وافق عموم الحدیث انتهی۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں:
والظاهر عندي عدم النقل إلا إذا فقد المستحقون لها أوتکون في النقل مصلحة أنفع وأهم من عدمه واللہ تعالیٰ أعلم (مرعاة جلد 3ص 4)
یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1496   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4347  
4347. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، وہاں جا کر انہیں پہلے کلمہ شہادت کی دعوت دینا کہ اللہ تعالٰی کے سوا وئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ تعالٰی کے رسول برحق ہیں۔ اگر وہ اس کا اقرار کرنے میں تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر روزانہ پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب یہ بھی مان لیں تو انہیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کر دی جائے گی۔ پھر اگر وہ اسے تسلیم کر لیں تو زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ و بکا سے بھی ڈرتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4347]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں أطاعوا کا لفظ آیا تھا۔
حضرت امام بخاری نے اپنے عادت کے مطابق قرآن کے لفظ طَوَّعَت کی تفسیر کردی کیونکہ دونوں کا مادہ ایک ہی ہے اورغرض یہ ہے کہ اس میں تین لغت آئے ہیں طوع طاع أطاع معنی ایک ہی ہیں یعنی راضی ہوا، مان لیا۔
مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو نہ ستاؤ کہ وہ مظلوم بن کر بد دعاکر بیٹھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4347   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7372  
7372. سیدنا ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، اس لیے سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں یعنی توحید کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اس عقیدہ توحید کو سمجھ جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے کے امیروں سے وصول کی جائے گی اور ان کے غریب لوگوں پر خرچ کی جائے گی۔پھر جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکاۃ وصول کرنا لیکن زکاۃ وصول کرتے وقت لوگوں کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7372]
حدیث حاشیہ:
توحیدکی دو قسمیں ہیں۔
توحید ربوبیت‘ توحید الوہیت۔
اللہ کو رب ماننا یہ قسم تو اکثر کفار ومشرکین کو بھی تسلیم رہی ہے۔
دوسری توحید کے معنی یہ کہ عبادت بندگی کے جتنے کام ہیں ان کو خالص ایک اللہ کے لیے بجا لانا۔
مشرکین کو اس سے انکار رہا اور آج اکثر نام نہاد مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ عبادت وبندگی اللہ کے سوا بزرگوں اور اولیاء کرام کی بھی بجا لاتے ہیں۔
اکثر مسلمان نما مشرکین قبروں کو سجدہ کرتے ہیں۔
بزرگان اسلام کے نام کی نذورنیاز کرتے ہیں۔
اس حدیث میں بہ سلسلہ تبلیغ پہلے توحید الوہیت کی دعوت دینا ضروری قرار دیا ہے پھر دیگر ارکان اسلام کی تبلیغ کرنا۔
کتاب التوحید سے حدیث کا یہی تعلق ہے کہ بہر حال توحید الوہیت مقدم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7372   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1395  
1395. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:سب سے پہلے اہل یمن کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے شب و روز میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے جو ان کے اہل قدرت سے وصول کر کے ان کے محتاجوں پر صرف کیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1395]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یمن بھیجا تھا۔
حضرت معاذ ؓ وہاں کے قاضی تھے اور ان کی اضافی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے متعین کردہ عمال سے صدقہ و خیرات وصول کریں۔
آپ نے یمن میں پانچ آدمی بطور تحصیل دار مقرر کیے تھے۔
صنعاء کا علاقہ حضرت خالد بن سعید ؓ کے حوالے تھا اور مہاجر بن ابی امیہ ؓ کندہ پر تعینات تھے۔
حضر موت پر زیاد بن لبید ؓ کی ذمہ داری تھی اور جندل پر حضرت معاذ ؓ کو مقرر کیا تھا جبکہ زبید، عدن اور ساحل کا علاقہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی زیر نگرانی تھا۔
(عمدةالقاري: 323/6) (2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وجوب زکاۃ کے لیے پیش کیا ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال کا صدقہ بھی فرض کیا ہے۔
اس حدیث میں زکاۃ پر لفظ صدقہ کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہے۔
(التوبة60: 9)
صدقات سے مراد مالِ زکاۃ ہے۔
بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس سے انکار کفر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1395   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1458  
1458. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن کا حاکم بنا کرروانہ کیا تو فرمایا:تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، سب سے پہلے تم نے انھیں اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت دینی ہے، جب وہ اس بات سے آشنا ہو جائیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ ان پر عمل کرنے لگیں تو انھیں مطلع کرو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کی جائے گی، جب وہ اس کی اطاعت پر آمادہ ہو جائیں تو ان سے زکاۃ وصول کرو،اس سلسلے میں ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1458]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں مطلق طور پر لوگوں کے عمدہ مال لینے سے منع کیا گیا ہے جبکہ عنوان میں انہیں لفظ صدقہ سے مقید کیا گیا ہے کیونکہ کلام کا سیاق و سباق صدقہ ہی سے متعلق ہے، اس لیے صدقہ وصول کرتے وقت لوگوں کے عمدہ مال لینے سے ممانعت ہے۔
اگرچہ اس میں غرباء سے ہمدردی مقصود ہے لیکن اغنیاء پر زیادتی کر کے ان سے عمدہ مال چھین کر مفلوک الحال لوگوں سے ہمدردی کرنا شرعا جائز نہیں۔
غالبا اسی وجہ سے اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہو کیونکہ اس کی آہ و بکا اور اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی، یعنی وہ بددعا فورا اللہ کے حضور شرف قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1458   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1496  
1496. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا:تم ایک قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لاإلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس سلسلے میں تمہاری بات تسلیم کرلیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کریں تو ان کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرو۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچو کیونکہ اس کی بد دعا اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1496]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ زکاۃ مالداروں سے وصول کر کے ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔
امام بخاری ؒ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو عام خیال کرتے ہیں کہ ایک ملک کی زکاۃ دوسرے ملک بھیجی جا سکتی ہے۔
لیکن امام بخاری ؒ مطلق طور پر یہ موقف نہیں رکھتے۔
ان کے نزدیک اگر اس شہر میں مستحقین نہ ہوں تو پھر دوسرے شہر منتقل کی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے (حيث كانوا)
کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ زکاۃ دوسرے ملک منتقل نہ کی جائے جبکہ وہاں مستحقین موجود ہوں۔
اگر کسی نے دوسرے ملک کے فقراء میں تقسیم کر دی تو اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر نہیں ہے، جواز میں کسی کو کلام نہیں۔
(2)
ہمارے نزدیک ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر دوسرے شہر میں مال زکاۃ صرف کیا جا سکتا ہے، البتہ عام حالات میں بہتر ہے کہ جس علاقے سے زکاۃ وصول کی جائے اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔
جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے۔
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا تو اس نے ہمارے مالداروں سے زکاۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی۔
(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 649)
حضرت عمران بن حصین ؓ کو زکاۃ وصول کرنے پر مقرر کیا گیا، جب وہ واپس آئے تو انہیں کہا گیا کہ مال زکاۃ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مال وہاں سے لیا جہاں سے عہد رسالت میں لیا کرتے تھے اور وہیں تقسیم کر دیا جہاں پر عہد رسالت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1625) (3)
واضح رہے کہ اس حدیث کے مخاطب مسلمان ہیں، لہذا غیر مسلم پر مال زکاۃ صرف نہیں کرنا چاہیے۔
(التوبة: 103: 9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1496   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4347  
4347. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، وہاں جا کر انہیں پہلے کلمہ شہادت کی دعوت دینا کہ اللہ تعالٰی کے سوا وئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ تعالٰی کے رسول برحق ہیں۔ اگر وہ اس کا اقرار کرنے میں تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر روزانہ پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب یہ بھی مان لیں تو انہیں خبردار کرنا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کر کے ان کے غرباء پر تقسیم کر دی جائے گی۔ پھر اگر وہ اسے تسلیم کر لیں تو زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ و بکا سے بھی ڈرتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4347]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع سے پہلے 9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور انھیں تلقین فرمائی کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تدریج کے اصول کوپیش نظر رکھیں تاکہ لوگ متنفر نہ ہوں۔
وہاں کے باشندوں کو اسلام کے احکام سے خبردار کریں۔
اسلامی ضابطے کے مطابق فیصلے کریں۔
خاص طور پر ان سے زکاۃ وصول کرتے وقت ان کا عمدہ مال لینے سے پرہیز کریں کیونکہ ایسا کرناظلم ہے اور مظلوم کی فریاد اللہ تعالیٰ ضرورسنتاہے۔

امام بخاری ؒ نے حسب عادت حدیث کے آخرمیں ایک قرآنی لفظ کی لغوی تشریح کی ہے جو حدیث کے ایک لفظ کے موافق تھا۔
یعنی ﴿فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ﴾ (المائدة: 30: 5)
کے معنی بتائے ہیں کہ اس کا نفس اس کے تابع ہوگیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4347   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7372  
7372. سیدنا ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو اہل یمن کی طرف بھیجا تو انہیں فرمایا: تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو، اس لیے سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو ایک مانیں یعنی توحید کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اس عقیدہ توحید کو سمجھ جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے کے امیروں سے وصول کی جائے گی اور ان کے غریب لوگوں پر خرچ کی جائے گی۔پھر جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو ان سے زکاۃ وصول کرنا لیکن زکاۃ وصول کرتے وقت لوگوں کے عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7372]
حدیث حاشیہ:

اہل کلام کے نزدیک انسان پر پہلا واجب یہ ہے کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے متعلق غور وفکرکرے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اس سلسلے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو، پھر وہ اس کے متعلق غوروخوض کرے جبکہ ہمارے اسلاف کے نزدیک انسان پر پہلا واجب عقیدہ توحید کو مضبوط کرنا ہےجیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے واضح ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اوربلاشبہ یقیناً ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو!)
تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت(کی عبادت)
سے بچو۔
(النحل: 136)
حضرت حارث بن حارث العائذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اکھٹے ہیں۔
میں نے اپنے والد سے پوچھا:
یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا:
یہ لوگ ایک صابی کے گرد جمع ہیں۔
جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید اورایمان کی دعوت دے رہے تھے۔
(التاریخ الکبیر: 262/13)
ایک روایت میں ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ انھیں شہادتیں کے اقرار اور اس پر ایمان کی دعوت دیں۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1395)
لاالٰه الا اللہ کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔
اس کی صراحت بھی ایک روایت میں ہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1458)
اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ اختیار کریں۔
اللہ تعالیٰ کےسوا دوسروں کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ عبادت کے علاوہ دوسرے تمام طریقوں سے دست بردار ہوجائیں۔

واضح رہے کہ ان شہادتین کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
ایک کے بغیر دوسری کا اعتبار نہیں کیا جائےگا۔
جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا یا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے دوسروں کوشریک کرتا ہے توایسا شخص بھی ایمان سے خارج ہے، اس لیے ایک بندہ مسلم کے لیے ان دونوں شہادتوں کا اقرار اور ان کے مطابق ایمان انتہائی ضروری ہے۔
(شرح کتاب التوحید للشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان: 39/1)
اللہ تعالیٰ کی معرفت دین اسلام کا ماحاصل ہے اور عقیدہ توحید اس معرفت کی اساس ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معرفت کے اصول وضوابط خوب وضاحت سے بیان فرما دیے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی اشتباہ یا شک باقی نہیں چھوڑا۔
اس بنا پر عقائد کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہی کافی ہے۔
کسی منطقی کی رائے، فلسفی کی عقل یا کسی تاویل کرنے والے کی تاویل کے ہم محتاج نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی توحید بیان کرنا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس فرض کو پوری ذمہ داری سے ادا کرکے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس پر گواہ بنایا۔
اب اس سے انحراف کرنے والوں کے لیے کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے منطق کی قیل وقال یا فلسفے کی موشگافیوں کا سہارا لیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع سے پہلے اپنے ہمسائے ملک یمن میں دعوت توحید اوراشاعت اسلام کے لیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا کہ وہ دونوں وہاں کے رہنے والے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی پہچان کرائیں۔
جب وہ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر دیگر شعائر اسلام کی انھیں تعلیم دیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان پر پہلا واجب اپنے رب کی معرفت ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس امر کو بیان کیا ہے اور اس عقیدہ توحید کی دعوت دی ہے، اب اس کی وضاحت کے بعد لوگوں کے خود ساختہ اصول وضوابط کی قطعاً ضرورت نہیں۔
اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کو حرز جاں بنانا چاہیے۔
اس کے علاوہ دیگر اہل کلام کے اقوال کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
(شرح کتاب التوحید الغنیمان: 42/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7372