سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
28. باب الصَّلاَةِ عَلَى غَيْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے پر درود بھیجنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1533
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى زَوْجِكِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے اور میرے شوہر کے لیے رحمت کی دعا فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صلى الله عليك وعلى زوجك» ”اللہ تجھ پر اور تیرے شوہر پر رحمت نازل فرمائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:3118)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ الشمائل (179)، سنن النسائی/الیوم اللیلة (423) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1533 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1533
1533. اردو حاشیہ: لفظ [صلاة]
کے متعدد معانی ہیں۔ ان میں سے ایک معنی دعا ہے۔ اور جو [صلاة]
رسول اللہ ﷺ کےلئے ہے۔ وہ اپنے مفہوم میں جامع اور عظیم تر ہے۔ اور اس کے خاص الفاظ ہم مسلمانوں کو تعلیم کر دیئے گئے ہیں جیسے کہ درود ابراہیمی وغیرہ میں ہے۔ غیر نبی کے لئے صلاۃ درود شریف میں بالتبع عموما پڑھی جاتی ہے۔ جیسے کہ [صلی الله علی النبيِّ محمدٍ وعلی آلِهٖ و صحبِهِ أجمعينَ) اور (صلی لله عليه وعلی آلهِ و سلم]
جیسے مختصر درود میں آل واصحاب کا ذکر معروف ہے۔ اور آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ زکوۃ پیش کرنے والوں کے لئے خاص دعا۔ [صلوة]
فرمایا کریں۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے۔ [خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ]
[التوبة۔103]
ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے۔ جس سے آپ انہیں پاک کریں۔ اور ان کا تزکیہ فرمایئں۔ اور ان کے حق میں دعائے خیر فرمایئں۔ بلاشبہ آپ کی دعا ان کےلئے سکون کا باعث ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ لفظ [صلاة]
سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کودعا دیا کرتے تھے۔ جیسے کہ اس حدیث میں وارد ہے مگر یہ صلاۃ بمعنی دعائے رحمت ہے۔ کیونکہ صلاة کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1533