Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
23. باب الدُّعَاءِ
باب: دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1483
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ لِيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس طرح دعا نہ مانگے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر، بلکہ جزم کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الدعوات 21 (6339)، والتوحید 31 (7477)، سنن الترمذی/الدعوات 78 (3497)، (تحفة الأشراف:13872، 13813)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الذکر والدعا 3 (2679)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 8 (3854)، موطا امام مالک/ القرآن 8 (28)، مسند احمد (2/243، 457، 286) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6339)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1483 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1483  
1483. اردو حاشیہ: اس انداز سے دعا میں گویا داعی خوب راغب نہیں ہوتا۔اور اسے ضرورت نہیں ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ پختگی اور عزیمت سے مانگا جائے۔ اے اللہ! مجھے یہ چیز عنایت فرما کیونکہ جب اللہ دیناچاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1483   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 449  
´دعا کرتے وقت اگر تو چاہے کہنے کی ممانعت`
«. . . 336- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يقولن أحدكم: اللهم اغفر لي إن شئت، اللهم ارحمني إن شئت؛ ليعزم المسألة، فإنه لا مكره له. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی بھی (دعا کے وقت) یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر۔ تاکید کے ساتھ (اللہ سے) سوال کرنا چاہئیے کیونکہ اسے مجبور کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 449]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6339، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ دعا صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔
➋ اللہ تعالیٰ سے اس جذبے کے ساتھ بطور جزم دعا مانگنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے ضرور دعا قبول فرمائے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 336   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3854  
´آدمی کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ کو بخش دے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے یقینی طور پر سوال کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی زور زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3854]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی امید رکھتے ہوئے اپنی حاجت طلب کرنی چاہیے۔

(2)
  یہ کہنا کہ اگر تو چاہے اللہ کے شایان شان نہیں، اس لیے ناپسندیدہ ہے کیونکہ سب کچھ دینے والا تو وہی ایک ہے اس سے تو اس عزم کے ساتھ مانگنا چاہیے کہ اگر تو میری دعا قبول نہیں کرے گا تو میرا تو تیر ے سوا اور کوئی در ہی نہیں ہے، میں تیرا در چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ بہرحال ایسے الفاظ نا پسندیدہ ہیں جن میں یقین کی بجائے مایوسی کا اظہار ہو۔

(3)
یہ دعا کرنا درست ہے کہ اگر فلاں چیز میرے لیے بہتر ہے تو مجھے عطا فرما دے ورنہ وہ چیز عطا فرما دے جو میرے لیے بہتر ہو۔
دعائے استخارہ میں یہی دعا کی جاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3854   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3497  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی شخص دعا مانگے تو) اس طرح نہ کہے: اے اللہ! تو چاہے تو ہمیں بخش دے، اے اللہ! تو چاہے تو ہم پر رحم فرما ۱؎ بلکہ زور دار طریقے سے مانگے، اس لیے کہ اللہ کو کوئی مجبور کرنے والا تو ہے نہیں (کہ کہا جائے: اگر تو چاہے)، [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3497]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی شبہہ اور تذبذب والی اور ڈھیلے پن کی بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ پورے عزم،
پختہ ارادے،
اور اپنی پوری کوشش کے ساتھ دعا مانگے جیسے مجھے یہ چاہیے،
مجھے یہ دے،
مجھے تو بس تجھی سے مانگنا ہے اور تجھ ہی سے پانا ہے وغیرہ وغیرہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3497   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6339  
6339. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ اسے یقین اسے یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6339]
حدیث حاشیہ:
1)
دعا کرتے وقت مسکینی اور عاجزی کا اظہار ہونا چاہیے، نیز اللہ تعالیٰ سے مکمل یقین کے ساتھ سوال کیا جائے۔
دعا کرتے وقت یہ نہ کہا جائے کہ اللہ اگر تو چاہے تو دے دے بلکہ یہ کہے کہ یا اللہ! تجھی سے لینا ہے کیونکہ انسان تو اللہ تعالیٰ کے حضور فقیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مالک دو جہاں ہے، اس کے خزانوں میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے، اس لیے یقین کے ساتھ سوال کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ پر زبردستی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
(2)
بہرحال دعا مانگنے کا یہ ادب ہے کہ پوری دل جمعی، نہایت خشوع و خضوع اور قبولیت کے یقین کامل کے ساتھ دعا کی جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6339   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7477  
7477. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: تم میں سے کوئی ان الفاظ میں دعا نہ کرے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر، اگر تو چاہے تو مجھے رزق عطا فرما، بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ عزم اور پختگی کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے، اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7477]
حدیث حاشیہ:
دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھنے سے منع کیا گیا ہے، اس کی دو وجوہات ہیں:
۔
مشیت پر موقوف رکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے چاہت کے بغیر مجبور کیا جا سکتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اسے کوئی بھی مجبور نہیں کرسکتا۔
۔
اس انداز سے دعا کرنا گویا مطلوب اور مطلوب منہ سے بے پروائی ظاہر ہوتی ہے، لہذا دعا کرتے وقت مشیت الٰہی پر موقوف رکھنے کی بجائے پورے عزم کے ساتھ دعا کرنی چاہیے۔
سوال میں پختگی کا مطلب یہ ہے کہ طلب میں شدت ہو، اس میں کسی قسم کی لچک کا اظہار نہ ہو اور نہ اپنے سوال کو مشیت پر موقوف رکھا جائے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 291/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7477