سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب شهر رمضان
کتاب: ماہ رمضان المبارک کے احکام و مسائل
2. باب فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
باب: شب قدر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1381
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى، وَفِي سَابِعَةٍ تَبْقَى، وَفِي خَامِسَةٍ تَبْقَى".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے (یعنی شب قدر کو) رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو جب نو راتیں باقی رہ جائیں (یعنی اکیسویں شب کو) اور جب سات راتیں باقی رہ جائیں (یعنی تئیسویں شب کو) اور جب پانچ راتیں باقی رہ جائیں (یعنی پچیسویں شب کو)“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/لیلة القدر 3 (2021) 3 (2026)، (تحفة الأشراف: 5994)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 279، 360، 365) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2021)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1381 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1381
1381. اردو حاشیہ: عرب کا تاریخ شمار کرنے میں ایک دستور یہ بھی ہے۔ کہ جب مہینہ نصف سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ تو وہ اس کے بقیہ دنوں سے تاریخ بتاتے ہیں۔ اور قمری مہینہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا۔ اس طرح آخری نویں ساتویں۔ اور پانچویں رات کے دو احتمال ہوتے ہیں۔ اگر مہینہ تیس دنوں کا ہو تو یہ راتیں بایئسویں چوبیسیویں اور چھبیسویں بنتی ہیں۔ اورآخر کی جانب سے طاق راتیں بنتی ہیں۔ اور اگر انتیس دنوں کا ہو تو یہ راتیں اکیسویں تیئسویں اور پچیسویں ہوتی ہیں۔۔۔۔ اس ذو معنی ارشاد سے رمضان کے آخری پورے عشرے بالخصوص ان تین راتوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس لیلۃ القدر کو مخفی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ بندے زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرکے اللہ کا تقرب حاصل کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1381
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2022
2022. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ رات آخری عشرے میں ہے جبکہ نو راتیں گزر جائیں یا سات راتیں باقی رہ جائیں۔“ یعنی شب قدر کے متعلق آپ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سےایک روایت ہے کہ اسے چوبیسویں رات میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2022]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث پر قسطلانی وغیرہ کی مختصر تشریح یہ ہے:
في أربع و عشرین من رمضان وهي لیلة إنزال القرآن و استشکل إیراد هذا الحدیث هنا لأن الترجمة لأوتار و هذا شفع وأجیب بأن المراد التمسوها في تمام أربعة و عشرین وهي لیلة الخامس و العشرین علی أن البخاري رحمه اللہ کثیرا ما یذکر ترجمة و یسوق فیها ما یکون بینه و بین الترجمة أدنی ملابسة الخ یعنی رمضان شریف کی چوبیسویں رات جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔
اور یہاں اس حدیث کو لانے سے یہ مشکل پیدا ہوئی کہ ترجمۃ الباب طاق راتوں کے لیے ہے اور یہ چوبیسویں رات طاق نہیں بلکہ شفع ہے اور اس مشکل کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے چوبیسویں تاریخ رمضان کو پورا کرکے آنے والی رات لیلۃ القدر کو تلاش کر اور وہ پچیسویں رات ہوتی ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ اکثر اپنے تراجم کے تحت ایسی احادیث لے آتے ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح باب سے ادنی سے ادنی مناسبت بھی نکل سکتی ہے۔
مترجم کہتا ہے کہ یہاں بھی حضرت امام ؒ نے باب میں في الوتر من العشر کا اشارہ اسی جانب فرمایا کہ اگرچہ روایت ابن عباس ؓ میں چوبیسویں تاریخ کا ذکر ہے مگر اس سے مراد یہی ہے کہ اسے پورا کرکے پچیسویں شب میں جو وتر ہے شب قدر کو اسی میں تلاش کرو۔
واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2022
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2022
2022. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ رات آخری عشرے میں ہے جبکہ نو راتیں گزر جائیں یا سات راتیں باقی رہ جائیں۔“ یعنی شب قدر کے متعلق آپ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سےایک روایت ہے کہ اسے چوبیسویں رات میں تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2022]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں یہ بیان ہوا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کی جائے جبکہ آخری حدیث میں چوبیسویں رات میں تلاش کرنے کا ذکر ہے اور یہ رات طاق نہیں ہے۔
شارحین بخاری نے اس اشکال کو بایں طور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلی روایت میں ہے کہ آخری سات راتوں میں تلاش کرو اور اگر مہینہ تیس کا ہو تو یہ چوبیسویں رات بنتی ہے، اس لیے ابن عباس ؓ نے اس احتیاط کے پیش نظر چوبیس کہا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ چوبیس دن پورے ہو جائیں تو یہ رات تلاش کرو۔
اس طرح اس سے مراد پچیسویں رات ہی ہے۔
(إرشادالساري: 593/4) (2)
”چوبیسویں رات میں تلاش کرو۔
“ یہ روایت موصول ہے، یا معلق اس بارے میں اختلاف ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان ہے کہ یہ عبدالوہاب کے طریق سے موصول ہے، تاہم امام مزی ؒ نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ معلق روایت ہے، عن خالد سے الگ روایت ہے۔
(فتح الباري: 333/4) (3)
اس روایت میں یہ جملہ باعث اشکال ہے اور شارحین نے اس کو حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے، وہ ہے (أربع و عشرين)
”چوبیسویں رات“ کیونکہ بات تو طاق راتوں سے متعلق ہے اور دیگر احادیث میں بھی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کی ترغیب ہے۔
ابن عباس کا یہ قول انہی الفاظ سے کسی اور کتاب میں ہمیں نہیں مل سکا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں مسند احمد کے حوالے سے ابن عباس ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے۔
یہ روایت ابن عباس ؓ سے مسند احمد:
(1/255)
، المعجم الکبیر للطبراني:
(292/11)
اور مصنف ابن أبي شیبة: 120/4 میں موصولاً مروی ہے اور اس میں ”چوبیسویں رات“ کے بجائے ” تئیسویں رات“ کے الفاظ ہیں، اس لیے (فتح الباري: 333/4)
میں (ليلة أربع و عشرين)
کے الفاظ سہو ہے۔
وہ روایت یوں ہے:
”ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ یہ لیلۃ القدر ہے میں اٹھا تو اونگھ رہا تھا، میرا پاؤں رسول اللہ ﷺ کے خیمے کی رسی میں الجھ گیا۔
میں نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے۔
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
میں نے غور کیا تو وہ تئیسویں رات تھی۔
“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ کے قول کی بنیاد یہی روایت ہے اور اس میں چوبیسویں کے بجائے تئیسویں کا ذکر ہے اور پھر چوبیسویں والی روایت معلق بھی ہے، اس لیے راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ”چوبیسویں رات“ کے الفاظ شاذ ہیں یا پھر راوی کا وہم ہے کیونکہ صحیح روایات میں طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے اور مسند احمد کی روایت میں بھی تئیسویں رات کا ذکر ہے۔
”سات راتیں باقی رہ جائیں“ والی روایت سے بھی یہی متبادر ہے کہ اس سے مراد تئیسویں رات ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2022