سنن ابي داود
أبواب قيام الليل
ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
26. باب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
باب: تہجد میں بلند آواز سے قرآت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1332
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ، وَقَالَ:" أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ، أَوْ قَالَ: فِي الصَّلَاةِ".
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعتکاف فرمایا، آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآت کرتے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”لوگو! سنو، تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور نہ قرآت میں (یا کہا نماز) میں اپنی آواز کو دوسرے کی آواز سے بلند کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4425)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/94) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (856)
صححه ابن خزيمة (1162 وسنده صحيح)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1332 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1332
1332. اردو حاشیہ: فائدہ: نمازی اور غیر نمازی کو اپنےاردگرد اور ماحول کا خیال رکھتے ہوئے قراءت قرآن میں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس کا قطعاً جواز نہیں کہ کوئی شخص دوسرے کے لیے عبادت میں اذیت کاباعث بنے۔ اس سے ضمناً یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ مساجد میں کسی معقول وجہ کے بغیر لاؤڈ سپیکر کا استعمال مناسب نہیں۔ ایسے ہی گھروں میں ریڈیوں اور ٹیپ کی آواز سے ہمسایوں کو اذیت دینا بھی جائز نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1332