Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب قيام الليل
ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
19. باب النُّعَاسِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں اونگھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1312
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ الْأَزْدِيُّ، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ وَحَبْلٌ مَمْدُودٌ بَيْنَ سَارِيَتَيْنِ، فَقَالَ:" مَا هَذَا الْحَبْلُ؟" فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُصَلِّي، فَإِذَا أَعْيَتْ تَعَلَّقَتْ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِتُصَلِّ مَا أَطَاقَتْ، فَإِذَا أَعْيَتْ فَلْتَجْلِسْ". قَالَ زِيَادٌ: فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" فَقَالُوا: لِزَيْنَبَ تُصَلِّي، فَإِذَا كَسِلَتْ أَوْ فَتَرَتْ أَمْسَكَتْ بِهِ، فَقَالَ:" حُلُّوهُ" فَقَالَ:" لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَإِذَا كَسِلَ أَوْ فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی ہے، پوچھا: یہ رسی کیسی بندھی ہے؟، عرض کیا گیا: یہ حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کی ہے، وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنی طاقت ہو اتنی ہی نماز پڑھا کریں، اور جب تھک جائیں تو بیٹھ جائیں۔ زیاد کی روایت میں یوں ہے: آپ نے پوچھا یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: زینب رضی اللہ عنہا کی ہے، وہ نماز پڑھا کرتی ہیں، جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس کو تھام لیتی ہیں، آپ نے فرمایا: اسے کھول دو، تم میں سے ہر ایک کو اسی وقت تک نماز پڑھنا چاہیئے جب تک «نشاط» رہے، جب سستی آنے لگے یا تھک جائے تو بیٹھ جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 32 (784)، سنن النسائی/قیام اللیل 15 (1644)، (تحفة الأشراف: 995)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد 18 (1150)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 184 (1371)، مسند احمد (3/101، 184، 204، 205) (صحیح) دون ذکر حمنة» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح دون ذكر حمنة ق

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1150) صحيح مسلم (784)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1312 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1312  
1312. اردو حاشیہ: فوائد مسائل:
➊ جب دین کی حلاوت (لذت اور مٹھاس) حاصل ہوتی ہے تو اس کا اظہار انتہائی بندگی اور کثرت نماز کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمارے سلف صالحین مرد اور عورتیں سب ہی اسی معیار پر پورا اترتے تھے۔
➋ عورتوں کو بھی مساجد میں نوافل پڑھنے کی رخصت ہے بشرطیکہ حجاب کا انتظام ہو۔
➌ غلطی اور برائی کو ہاتھ سے دور کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔
➍ عبادت میں میانہ روی ہی احسن عمل ہے۔
➎ اس حدیث میں زینت رضی اللہ عنہا کا ذکر ہی صحیح ہے نہ کہ حمنہ بنت جحش کا۔ (شیخ البانی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1312   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1644  
´شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے دو ستونوں کے درمیان میں ایک لمبی رسی دیکھی، تو آپ نے پوچھا: یہ رسی کیسی ہے؟ تو لوگوں نے عرض کیا: زینب (زینب بنت جحش) کی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں، جب کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھولو اسے، تم میں سے کوئی بھی ہو جب تک اس کا دل لگے نماز پڑھے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1644]
1644۔ اردو حاشیہ:
➊ سستی کی حالت میں نماز کے دوران میں خشوع و خضوع باقی نہیں رہتا۔ اور نماز نام ہی خشوع و خضوع کا ہے، اس لیے منع فرمایا، نیز ممکن ہے سستی اور تھکا وٹ کی حالت میں نمازی کہنا کچھ چاہے، زبان سے نکل کچھ جائے۔ علاوہ ازیں ایسی حالت میں اکتاہٹ بھی پیدا ہو سکتی ہے جو ترک کو مستلزم ہے، لہٰذا سستی، تھکا وٹ اور نیند کی حالت میں نماز چھوڑ کر آرام کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ چستی پیدا ہو۔
➋ منکر کا ازالہ کرنا چاہیے، ہاتھ زبان سے یا جیسے بھی ممکن ہو۔
➌ عورت مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1644   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1371  
´نمازی اونگھنے لگے تو کیا کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، تو دو ستونوں کے درمیان ایک رسی تنی ہوئی دیکھی، پوچھا یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: زینب کی ہے، وہ یہاں نماز پڑھتی ہیں، جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھول دو، اسے کھول دو، تم میں سے نماز پڑھنے والے کو نماز اپنی نشاط اور چستی میں پڑھنی چاہیئے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1371]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابیات میں متعدد کا نام زینب تھا۔
ان میں سے دو خواتین امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔
اس حدیث میں کس زینب کا ذکر ہے۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں تفصیل سے کلام کیا ہے۔
ان کا رجحان اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاتون ام المومنین حضرت زینب بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔
واللہ أعلم۔
 (فتح الباري، 47/3،   حدیث: 1150)

(2)
عبادت اور ذکر کی مقدار اس حد تک مقرر کرنی چاہیے کہ انسان بہت زیادہ مشقت محسوس نہ کرے۔

(3)
مشقت محسوس کرنے کی صورت میں اپنے طور پر مقرر نفلی عبادت میں کمی کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1371   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1150  
1150. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ (مسجد میں) داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ رسی حضرت زینب‬ ؓ ن‬ے لٹکا رکھی ہے کیونکہ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں! اسے کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص نشاط طبع کے ساتھ نماز پڑھے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1150]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عبادت کرتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔
اس کے متعلق بے جا سختی اور تشدد معیوب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے طبیعت میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں جو قابل مذمت ہیں، نیز ایسا کرنا روح عبادت کے بھی خلاف ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف طبائع بنائی ہیں:
کچھ لوگ بڑے عزم اور حوصلے والے ہوتے ہیں۔
وہ عزائم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور رخصتوں کو اختیار نہیں کرتے۔
وہ تمام اوقات اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔
اگر ضرورت پڑے تو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں، نیز جہاد کرتے وقت اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، لیکن ایسے باہمت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو دین کی رخصتوں اور آسانیوں پر عمل کرتے ہیں۔
شریعت کے اکثر احکام ایسے ہی لوگوں سے متعلق ہیں۔
ایسے لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ مقرر ہوا ہے کہ خواہ تھوڑا عمل ہو مگر ہمیشگی کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ایسے لوگوں کو عبادات میں تشدد سے منع کیا گیا ہے تاکہ زیادہ عمل سے اُکتا نہ جائیں، لیکن رسول اللہ ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے قدموں پر ورم آ جاتا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1150