سنن ابي داود
كتاب التطوع
کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام و مسائل
13. باب فِي صَلاَةِ النَّهَارِ
باب: دن کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1296
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ، وَتَقُولَ: اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ". سُئِلَ أَبُو دَاوُدَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى، قَالَ: إِنْ شِئْتَ مَثْنَى وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا.
مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے اللہ! اے اللہ!، جس نے ایسا نہیں کیا یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے“۔ ابوداؤد سے رات کی نماز دو دو رکعت ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چاہو تو دو دو پڑھو اور چاہو تو چار چار۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 172 (1325)، (تحفة الأشراف: 11288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/167) (ضعیف)» (اس کے راوی عبد اللہ بن نافع مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1325)
عبد اللّٰه بن نافع بن العمياء ضعفه البخاري والجمهور وضعفه راجح
وقال ابن حجر: مجهول (تقريب التهذيب:3658)
وفي سماعه من عبد اللّٰه بن الحارث نظر
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1296 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1296
1296۔ اردو حاشیہ:
ملحوظہ: یہ حدیث تو ضعیف ہے مگر چار رکعات پڑھنے کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں موجود ہے جس میں رمضان کی رات کی نماز کا سوال کیا گیا تھا۔ دیکھیے: [صحيح بخاري: 1147]
لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (نماز تہجد) دو دو رکعت ہوا کرتی تھی، سوائے وتر کے، اس لیے آپ کا زیادہ عمل دو دو کر کے ہی پڑھنے کا تھا نہ کہ چار چار کر کے پڑھنے کا۔ صرف بیان جواز کے لیے آپ نے بعض دفعہ چار چار کر کے پڑھی ہیں۔ بنابریں نوافل دو دو کر کے پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح البار ي: 2/618، أوائل كتاب الوتر، حديث: 990۔ 992]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1296