سنن ابي داود
كتاب صلاة السفر
کتاب: نماز سفر کے احکام و مسائل
5. باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ
باب: دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1207
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَسَارَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ، فَقَالَ" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِي سَفَرٍ جَمَعَ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفیہ ۱؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے نظر آنے لگے، تو عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کرتے، پھر وہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہر کر دونوں کو ایک ساتھ ادا کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، ((تحفة الأشراف: 7584)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، والعمرة20 (1805)، والجہاد 136 (3000)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (703)، سنن الترمذی/الصلاة 277 (555)، سنن النسائی/المواقیت 43 (596)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1(3)، مسند احمد (2/51، 80، 102، 106، 150)، سنن الدارمی/الصلاة 182(1558) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صفیہ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیوی تھیں، مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک یہ ہے کہ ”حالت نزع کی خبر دی گئی“، نسائی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ صفیہ نے خود خط لکھا کہ میں حالت نزع میں ہوں جلدی ملیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح خ م المرفوع منه
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
أخرجه الترمذي (555 وسنده صحيح)