حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا، يَعْنِي، وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1505
´امام بارش کے لیے کب دعا کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! چوپائے ہلاک ہو گئے، (اور پانی نہ ہونے سے) راستے (سفر) ٹھپ ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، تو جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی، تو پھر ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر منہدم ہو گئے، راستے (سیلاب کی وجہ سے) کٹ گئے، اور جانور مر گئے، تو آپ نے دعا کی: «اللہم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر» ”اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، نالوں اور درختوں پر برسا“ تو اسی وقت بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گئے جیسے کپڑا (اپنے پہننے والے سے اتار دینے پر الگ ہو جاتا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1505]
1505۔ اردو حاشیہ:
➊ قحط سالی کی بنا پر جانوروں کو چارہ نہ ملنے سے ان کی ہلاکت واضح ہے۔ راستے منقطع ہونے کی وجہ یا تو گھاس وغیرہ کا ختم ہونا ہے کہ جب گھاس نہ ہو گی تو جانوروں کا گزارا کیسے ہو گا؟ اور سفر جانوروں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یا جب کچھ ہے ہی نہیں تو سفر کس لیے کرنا ہے؟ تجارتی منڈیاں بھی تبھی چلیں گی جب کوئی فصل ہو، قحط سالی کی وجہ سے فصلیں نہ رہیں تو تجارت بھی ختم۔
➋ بارش کے بعد بھی جانوروں کی ہلاکت یا تو سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے تھی یا اس لیے کہ بارش ختم ہو تو کچھ اگے۔ ہلاکت سے مراد انتہائی کمزوری بھی ہو سکتی ہے، یعنی ہلاکت کے قریب ہو گئے۔ راستے منقطع ہونا تو واضح ہے کہ پانی کی کثرت کی بنا پر چلنا ممکن نہیں رہا، نیز سابقہ وجوہات بھی قائم ہیں۔ بارش رکے تو وہ وجوہات ختم ہوں۔
➌ ”جس طرح کپڑا پھٹ جاتا ہے“ یعنی مدینہ منورہ کے اوپر سے بادل ہٹ گئے اور اردگرد بادل ہی بادل تھے تو دیکھنے سے ایسے لگتا تھا جیسے درمیان سے کپڑا پھٹ گیا ہے اور جگہ خالی ہو گئی ہے۔ بادل کو کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
➍ دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت سے ہے۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
➎ باب کا مقصد یہ ہے کہ بارش کی دعا اس وقت کی جائے جب بارش نہ ہونے سے نقصان ہو، ورنہ ہر وقت تو بارش نہیں ہوتی اور نہ ہر وقت دعا ہی کی جاتی ہے۔
➏ قحط سالی کے موقع پر لوگ امام سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کرسکتے ہیں۔
➐ ایک آدمی پوری جماعت کی طرف سے نمائندگی کر سکتا ہے۔
➑ نیک بزرگوں سے دعا کروانی چاہیے۔
➒ دعا میں تمام لوگوں کے احوال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق بارش رکنے کی دعا نہیں کی بلکہ صرف مدینے میں بارش رکنے کی دعا کی۔ اس غرض سے کہ ممکن ہے دوسرے علاقوں میں ابھی بارش کی ضرورت ہو۔
➓ کسی مصیبت اور آزمائش کے خاتمے کی دعا کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ (11)اس حدیث سے نمازاستسقاء کی نفی نہیں ہوتی بلکہ وہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا اس حدیث میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ نماز استسقاء غیرمشروع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1505
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1514
´استسقاء میں ہاتھ کیسے اٹھائے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے استسقاء کے اپنے دونوں ہاتھ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے، آپ اس میں اپنے دونوں ہاتھ اتنا بلند کرتے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1514]
1514۔ اردو حاشیہ: عام دعا میں سینے یا چہرے کے برابر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ دعائے استسقاء میں کثرت تضرع و تخشع کی بنا پر ہاتھ مزید اونچے فرماتے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1514
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1516
´استسقاء میں ہاتھ کیسے اٹھائے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے روز مسجد میں تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! راستے (سفر) ٹھپ ہو گئے، جانور ہلاک ہو گئے، اور علاقے خشک سالی کا شکار ہو گئے، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے کے بالمقابل اٹھایا، پھر آپ نے دعا کی: «اللہم اسقنا» ”اے اللہ! ہمیں سیراب کر“ تو قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہ تھے کہ زور دار بارش ہونے لگی، اور اس دن سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ چنانچہ پھر ایک آدمی کھڑا ہوا (مجھے یاد نہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے لیے دعا کرنے کے لیے کہا تھا یا کوئی دوسرا شخص تھا) اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پانی کی زیادتی کی وجہ سے راستے بند ہو گئے ہیں، اور جانور ہلاک ہو گئے ہیں، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ (اب) ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا ولكن على الجبال ومنابت الشجر» ”اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا، ہم پر نہ برسا، اور پہاڑوں پر اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا۔“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! آپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ بادل پھٹ پھٹ کر (آسمان صاف ہو گیا) یہاں تک کہ ہمیں اس میں سے کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1516]
1516۔ اردو حاشیہ:
➊ ”چہرۂ مبارک کے برابر“ یہ مسجد نبوی کے اندر کی بات ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت: (1514) شہر سے باہر کے بارے میں تھی، لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔ عام دعا میں ہاتھ سینے یا چہرے کے برابر ہی اٹھائے جاتے ہیں۔
➋ امام صاحب نے ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا باب نہیں باندھا۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعائے استسقاء میں آپ کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی اور ہتھیلیاں زمین کے رخ تھیں۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی واقع مصیبت کے رفع کی دعا ہو تو ہاتھ الٹے ہوں، یعنی ان کی پشت آسمان کی طرف ہو اور اگر کسی چیز کا سوال ہو تو ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔ شاید دعائے استسقاء میں ہاتھوں کو الٹنا، چادر الٹانے کی طرح بطورِ فال ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت بدل دے۔
➌ آپ کی دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت میں سے ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1516
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1518
´استسقاء کی دعا کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ کچھ لوگ آپ کی طرف اٹھ کر بڑھے، اور چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! بارش نہیں ہو رہی ہے، اور جانور ہلاک ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے۔ تو آپ نے دعا کی: «اللہم اسقنا اللہم اسقنا» ”اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما۔“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اس وقت ہم کو آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا (مگر آپ کے دعا کرتے ہی) بدلی اٹھی، اور پھیل گئی، پھر برسنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے، اور آپ نے نماز پڑھی، اور لوگ فارغ ہو کر پلٹے تو دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ تو دوسرے جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، تو لوگ پھر چلا کر کہنے لگے: اللہ کے نبی! گھر گر گئے، راستے ٹھپ ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ اب اسے ہم سے روک لے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور آپ نے دعا فرمائی: «اللہم حوالينا ولا علينا» ”اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا“ تو بادل مدینہ سے چھٹ گئے، اور اس کے اطراف میں برسنے لگے، اور مدینہ میں ایک بوند بارش کی نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے مدینہ کو دیکھا کہ وہ ایسا لگ رہا تھا گویا وہ تاج پہنے ہوئے ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1518]
1518۔ اردو حاشیہ: مدینہ منورہ کے اوپر بالکل بادل نہیں تھے، اردگرد بادل تھے۔ درمیان میں گولائی کی صورت میں نیلگوں آسمان نظر آتا تھا۔ تاج بھی ایسا ہی ہوتا ہے، گول اور سر کے گرداگرد لپٹا ہوا۔ یہ ایک بہترین شاعرانہ تخیل ہے جس سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مدینہ منورہ سے عقیدت اور محبت جھلکتی ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کو ایسے پیارے الفاظ سے بیان فرمایا۔ رضی اللہ عنہ وارضاء۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1518
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1519
´استسقاء کی دعا کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مال (جانور) ہلاک ہو گئے، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی: «اللہم أغثنا اللہم أغثنا» ”اے اللہ! ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما۔“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم کو آسمان میں کہیں بادل یا بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا، اور ہمارے اور سلع پہاڑی کے بیچ کسی گھر یا مکان کی آڑ نہ تھی، اتنے میں ڈھال کے مانند بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا، پھر جب وہ آسمان کے درمیان میں پہنچا تو پھیل گیا، اور برسنے لگا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر اگلے جمعہ میں اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، تو وہ آپ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کا سلام و صلاۃ (درود و رحمت) ہو آپ پر! مال ہلاک ہو گئے (جانور مر گئے)، اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہم سے اسے روک لے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، اور دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا اللہم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر» ”اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ! ٹیلوں، چوٹیوں، گھاٹیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا“ یہ کہنا تھا کہ بادل چھٹ گئے، اور ہم نکل کر دھوپ میں چل رہے تھے۔ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا یہ وہی پہلا شخص تھا، تو انہوں نے کہا: نہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1519]
1519۔ اردو حاشیہ:
➊ عربی میں عبادت میں صرف لفظ لا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ”نہیں“ یعنی یہ وہ آدمی نہیں تھا۔ مگر حدیث نمبر (1516) کی صراحت کے خلاف ہے، وہاں صراحت ہے کہ میں نہیں جانتاکہ یہ وہی شخص تھا یا اور، لہٰذا یہاں یہ معنی مراد ہیں کہ میں نہیں جانتا۔ واللہ اعلم۔
➋ مذکورہ چاروں روایات میں نمازاستسقاء کے بغیر صرف دعا کا ذکر ہے، گویا نماز ضروری نہیں۔ صرف دعا بھی کافی ہے، الایہ کہ کہا جائے کہ جمعے کی دو رکعت نماز استسقاء کی جگہ کفایت کرتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سرے سے نمازاستسقاء یہ کے قائل نہیں، یعنی ان کے نزدیک نماز استسقاء مسنون نہیں۔ مگر یہ موقف ان صحیح اور صریح روایات کے خلاف ہے جن میں دعائے استسقاء کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر سے باہر جانا بلکہ منبر ساتھ لے جانا اور دعا کے بعد دو رکعات پڑھانے کا صراحتاً ذکر ہے، لہٰذا یہ امام صاحب کی اجتہادی غلطی ہے جسے غلطی ہی ماننا چاہیے نہ کہ ان کے قول کی وجہ سے صحیح اور صریح روایات کی دور از کار تاویلات کرنی چاہییں کہ یہ دراصل جمعے ہی کی نماز تھی صرف مسجد مسقف (چھت والی) سے باہر مسجد کے صحن میں آئے اور منبر بھی وہیں لایا گیا تھا۔ ایسی پنجگانہ تاویلیں اہل علم کے شایان شان نہیں۔ کوئی شخص بھی غلطی سے پاک اور معصوم نہیں ہے لہٰذا یہ تکلف بے جا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1519
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1529
´بارش روکنے کی دعا کے وقت امام اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کو قحط سالی سے دو چار ہونا پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک اعرابی (بدو) کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مال (جانور) ہلاک ہو گئے، اور بال بچے بھوکے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اس وقت ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں کو ابھی نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ بادل پہاڑ کے مانند امنڈنے لگا، اور آپ ابھی اپنے منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے دیکھا بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے ٹپک رہا ہے، ہم پر اس دن، دوسرے دن اور اس کے بعد والے دن یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی، تو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! عمارتیں منہدم ہو گئیں، اور مال و اسباب ڈوب گئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیے۔ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اور آپ نے یوں دعا کی: «اللہم حوالينا ولا علينا» ”اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور (اب) ہم پر نہ برسا“ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بادل کی جانب جس طرف سے بھی اشارہ کیا، وہ وہاں سے چھٹ گئے یہاں تک کہ مدینہ ایک گڈھے کی طرح لگنے لگا، اور وادی پانی سے بھر گئی، اور جو بھی کوئی کسی طرف سے آتا یہی بتاتا کہ خوب بارش ہوئی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1529]
1529۔ اردو حاشیہ: اس واقعے میں چند باتیں قابل غور ہیں:
➊ ایک سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قحط کی تکلیف، برداشت کرتے رہے مگر اُف تک نہ کی۔ بڑے لوگوں کے ظرف بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ شکوے کا لفظ تو دور کی بات ہے، وہ تصور بھی دل و دماغ میں نہیں پاتے۔
➋ اعرابی سادہ اور بے ساختہ ہوتے تھے۔ انہوں نے آپ کو لوگوں کی خصوصاً بے زبان جانوروں کی تکلیف کی طرف توجہ دلائی تو آپ نے لحاظ رکھتے ہوئے دعا فرما دی۔
➌ ہفتہ بھر کی بارش کی مشقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندہ پیشانی سے برداشت فرماتے رہے۔ شکوہ تو کجا حرف دعا بھی زبان پر نہ لائے حتی کہ وہی اعرابی یا کسی اور غیر معروف اعرابی کے اظہار مصیبت پر، خصوصاً جانوروں کی بے گناہ ہلاکت کے پیش نظر آپ نے بارش کی بندش کی دعا فرمائی۔ سب لوگوں کے ظرف تو ایک جیسے نہیں۔ یہ کائنات سب قسم کے لوگوں کے لیے ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عبودیت ملاحظہ کیجیے کہ ہاتھ اٹھاتے ہیں تو خالی آسمان بادلوں سے بھر جاتا ہے۔ ہاتھ گراتے ہیں تو بادل چھا جوں برسنے لگتے ہیں اور جب تک وہی مقدس ہاتھ نہیں اٹھتے، بادل برسنا بند نہیں ہوتے، اگرچہ سات دن گزر گئے، پھر وہ پاک ہاتھ اٹھتے ہیں تو بادل اچانک برسنے سے رک جاتے ہیں۔ ہاتھوں کا اشارہ ہوتا ہے تو بادل چھٹنے لگتے ہیں اور لوگ دھوپ میں چلنے لگتے ہیں۔ یہ مرتبہ ہے عبدہ و رسولہ کا، نہ اپنے لیے بارش مانگی، نہ خود بندش کی دعا کی، پھر فخر ہے نہ تعلیٰ، نداہ ابی وامی وروحی و نفسی و ولدی۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1529
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1749
´وتر کی دعا میں دونوں ہاتھ نہ اٹھانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے ثابت سے پوچھا: آپ نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: سبحان اللہ، میں نے کہا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1749]
1749۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور دعا میں اتنے بلند ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے جتنے استسقا ء میں اٹھاتے تھے۔ اس میں آپ نے ہاتھ سر سے بھی اونچے کرلیے تھے جبکہ عام دعا میں ہاتھ سینے کے برابر ہوتے ہیں۔ احادیث میں آپ کا عام دعاؤں میں بھی ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
➋ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اس لیے افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ قنوت وتر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع سے قبل کی جائے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث (1700) میں ہے، تاہم بعض علماء بعض آثار کے پیش نظر اور قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ قنوت نازلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت ہیں۔ واللہ اعلم۔
➌ یہاں ہاتھ اٹھانے سے مراد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے نہ کہ معروف رفع الیدین جو نماز کے شروع میں کیا جاتا ہے، مگر احناف اسی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ اور قنوت میں عملاً رفع الیدین کرتے بھی ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ احناف رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کے قائل نہیں (بلکہ اس سے منع کرتے اور نماز کے سکون کے منافی خیال کرتے ہیں) حالانکہ وہ صحیح ترین کثیر احادیث سے ثابت ہے اور وتر کی دعا کے آغاز میں رفع الیدین کے قائل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ کیا یہ رفع الیدین نماز کے سکون کے منافی نہیں؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1749
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1013
1013. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔“ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1013]
حدیث حاشیہ:
سلع مدینہ کا پہاڑ۔
مطلب یہ کہ کسی بلند مکان یاگھر کی آڑ بھی نہ تھی کہ ابرہو اور ہم اسے نہ دیکھ سکیں بلکہ آسمان شیشے کی طرح صاف تھا، برسات کا کوئی نشان نہ تھا۔
اس حدیث سے حضرت امام ؒ نے یہ ثابت فرمایا کہ جمعہ میں بھی استسقاء یعنی پانی کی دعا مانگنا درست ہے، نیز اس حدیث سے کئی ایک معجزات نبوی کا ثبو ت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ پاک سے بارش کے لیے دعا فرمائی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔
پھر جب کثرت باراں سے نقصان شروع ہوا تو آپ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائی اور وہ بھی فوراًقبول ہوئی۔
اس سے آپ کے عند اللہ درجہ قبولیت وصداقت پر روشنی پڑتی ہے۔
صلی اللہ علیه وسلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1013
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1014
1014. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو دارقضاء کی طرف تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ”اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔“ حضرت انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک کوئی بارش کا چھوٹا یا بڑا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک چھوٹا سا بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ پھر اگلے جمعے ایک شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1014]
حدیث حاشیہ:
سلع مدینہ کی مشہور پہاڑی ہے ادھر ہی سمندر تھا۔
راوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بادل کا کہیں نام ونشان بھی نہیں تھا۔
سلع کی طرف بادل کا امکان ہو سکتا تھا۔
لیکن اس طرف بھی بادل نہیں تھا۔
کیونکہ پہاڑی صاف نظر آرہی تھی درمیان میں مکانات وغیرہ بھی نہیں تھے اگر بادل ہوتے تو ضرور نظر آتے اور حضور اکر م ﷺ کی دعا کے بعد بادل ادھر ہی سے آئے۔
دار القضاء ایک مکان تھا جو حضرت عمر ؓ نے بنوایا تھا۔
جب حضرت عمر کا انتقال ہونے لگا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ یہ مکان بیچ کر میرا قرض ادا کردیا جائے جو بیت المال سے میں نے لیا ہے۔
آپ کے صاحبزادے عبد اللہ ؓ نے اسے حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا، اس وجہ سے اس گھر کو دار القضاء کہنے لگے، یعنی وہ مکان جس سے قرض ادا کیا گیا، یہ حال تھا مسلمانوں کے خلیفہ کا کہ دنیا سے رخصتی کے وقت ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1014
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1015
1015. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر باران رحمت نازل فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہم پر بارش برسنے لگی، ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں کو پہنچے، چنانچہ آئندہ جمعہ تک ہم پر بارش برستی رہی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ (اگلے جمعے) وہی شخص یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو ہم پر نہ ہو۔“ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بادل کو چھٹ کر دائیں بائیں جاتے دیکھا، پھر دوسرے لوگوں پر تو بارش ہوتی رہی لیکن اہل مدینہ پر نہیں ہو رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1015]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بظاہر منبر کا ذکر نہیں ہے آپ ﷺ کے خطبہ جمعہ کا ذکر ہے جو آپ منبر ہی پر دیا کرتے تھے کہ اس سے منبر ثابت ہو گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1015
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1017
1017. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! قحط سالی کی وجہ سے مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے (بارش کی) دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ان پر بارش برستی رہی۔ پھر ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! کثرت باراں سے گھر منہدم، راستے تباہ اور مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی:”اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ریت کے ٹیلوں، نشیبی وادیوں اور درخت اُگنے کے مقامات پر بارش برسا۔“ اس کے بعد مدینہ منورہ سے اس طرح بادل چھٹ گئے جس طرح کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1017]
حدیث حاشیہ:
اور پانی پروردگار کی رحمت ہے، اس کے بالکل بند ہوجانے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ یوں فرمایا کہ جہاں مفید ہے وہاں برسے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1017
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1018
1018. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے ہاں مال کے ہلاک ہونے اور اہل و عیال کے مشقت میں مبتلا ہونے کی شکایت کی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائی۔ حضرت انس ؓ نے چادر پلٹنے یا استقبالِ قبلہ کا ذکر نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1018]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ چادر الٹانا اس استسقاءمیں سنت ہے جو میدان میں نکل کر کیا جائے اور نماز پڑھی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1018
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1031
1031. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کرتے وقت (زیادہ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور بارش کی دعا میں اس قدر ہاتھ بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1031]
حدیث حاشیہ:
ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ ”استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔
خود امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے (قسطلاني)
علامہ نووی فرماتے ہیں:
هَذَا الْحَدِيثُ يُوهِمُ ظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَمْ يرفع ص إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ وَلَيْسَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ بَلْ قد ثبت رفع يديه ص فِي الدُّعَاءِ فِي مَوَاطِنَ غَيْرِ الِاسْتِسْقَاءِ وَهِيَ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ تُحْصَرَ وَقَدْ جَمَعْتُ مِنْهَا نَحْوًا مِنْ ثَلَاثِينَ حَدِيثًا مِنَ الصَّحِيحَيْنِ أَوْ أحدهما وذكرتها فِي أَوَاخِرِ بَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ مِنْ شَرْحِ الْمُهَذَّبِ وَيُتَأَوَّلُ هَذَا الْحَدِيثُ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَرْفَعِ الرَّفْعَ الْبَلِيغَ بِحَيْثُ يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ أَوْ أَنَّ الْمُرَادَ لَمْ أَرَهُ رَفَعَ وَقَدْ رَآهُ غَيْرُهُ رَفَعَ فَيُقَدَّمُ الْمُثْبِتُونَ فِي مَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ وَهُمْ جَمَاعَاتٌ عَلَى وَاحِدٍ لَمْ يَحْضُرْ ذَلِكَ وَلَا بُدَّ مِنْ تَأْوِيلِهِ لِمَا ذَكَرْنَاهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔
(نووي، ج: 1ص293)
خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔
میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس ؓ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1031
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1033
1033. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا، چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور بچے بھوک سے مرنے لگے، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) دونوں ہاتھ اٹھا لیے جبکہ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ بادل ایسے اٹھا جیسے پہاڑ ہوتے ہیں۔ ابھی رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے نہیں تھے کہ میں نے دیکھا بارش آپ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہی تھی۔ تمام دن بارش ہوتی رہی، کل، پرسوں اور ترسوں، بعد ازاں دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مکانات گرنے لگے اور مویشی ڈوبنے لگے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1033]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے باران رحمت کا پانی اپنی ریش مبارک پر بہایا۔
مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بارش میں اپنا کپڑا کھول دیا اور یہ پانی اپنے جسد اطہر پر لگایا اور فرمایا کہ إنه حدیث عھد بربه۔
یہ پانی ابھی ابھی تازہ بتازہ اپنے پروردگار کے ہاں سے آیا ہے۔
معلوم ہوا کہ بارش کا پانی اس خیال سے جسم پر لگانا سنت نبوی ہے۔
اس حدیث سے خطبۃ الجمعہ میں بارش کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1033
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3565
3565. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں (مبالغہ کے ساتھ) ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ نماز استسقاء میں اس حد تک اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی جاسکتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3565]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے لانے کی غرض یہاں یہ ہے کہ آپ کی بغلیں بالکل سفید اور صاف تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3565
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6342
6342. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے کرنے لگا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے بارش کی دعا کریں۔ آپ نے دعا کی تو آسمان پر بادل آگئے اور بارش برسنے لگی۔ بارش اس قدر ہوئی کہ آدمی اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہ بارش آئندہ جمعہ تک ہوتی رہی۔ پھر وہی آدمی یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں بارش بند کر دے۔ ہم تو ڈوبنے لگے ہیں آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر اسے بند کر دے۔“ چنانچہ بادل ٹکڑے ٹکڑے مدینہ طیبہ کے ارد گرد پھیل گئے اور اہل مدینہ پر بارش رک گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6342]
حدیث حاشیہ:
حالت خطبہ میں اس طور دعا فرمائی کہ آپ سامعین کی طرف سے منہ کئے ہوئے تھے اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6342
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6093
6093. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن نبی ﷺ کے پاس جبکہ آپ مدینہ طیبہ میں خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے عرض کی: بارش کا قحط پڑ گیا ہے لہذا آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کریں۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہمیں کہیں بھی بادل نظر نہیں آ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے بارش کی دعا کی تو بادل اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف جانے لگے۔ پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعے تک اسی طرح بارش ہوتی رہی اور وہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ آئندہ جمعہ وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا جبکہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے اس نے کہا ہم ڈوب گئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اب بارش بند کر دے۔ آپ ﷺ ہنس پڑے پھر دعا کی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو، ہم پر نہ برسے۔“ دو تین مرتبہ آپ نے اس طرح فرمایا چنانچہ مدینہ طیبہ سے دائیں بائیں بادل چھٹنے لگے ہمارے ارد گرد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6093]
حدیث حاشیہ:
روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسنے کا جو ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے دیگر مذکور ہ احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کا کسی نہ کسی طرح ذکر ہے مگر آپ کا ہنسنا صرف تبسم کے طور پر ہوتا تھا عوام کی طرح آپ نہیں ہنستے تھے۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6093
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:932
932. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اس اثنا میں اچانک ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مال مویشی اور بکریاں ہلاک ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہم پر بارش برسائے، چنانچہ آپ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:932]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمارہ بن رؤیبہ ؓ نے بشر بن مروان کو دیکھا کہ وہ منبر پر ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا۔
آپ نے اسے بایں حالت دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھوں کا ستیاناس کرے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2018 (874)
جبکہ امام بخاری ؒ نے دوران خطبہ میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا اثبات کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ صحابی کا انکار ایک مخصوص طرز عمل سے متعلق تھا، (فتح الباري: 530/2)
یعنی وہ دوران خطبہ میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر شعلہ بیانی کا مظاہرہ کر رہا تھا جبکہ امام بخاری ؒ دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے کے عمل کو ثابت کر رہے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 932
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1013
1013. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔“ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1013]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے صرف یہی مسئلہ ثابت کیا ہے کہ دعائے استسقاء کے لیے باہر کھلے میدان میں جانا، قبلہ رو ہونا اور چادر وغیرہ پلٹنا اگرچہ مشروع ہے، لیکن حالات و ظروف کے مطابق صرف دعا بھی کی جا سکتی ہے، نیز اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے کئی ایک معجزات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ سے بارش کی دعا کی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہو گئی۔
پھر کثرت باراں سے جب نقصان ہونے لگا تو آپ نے بارش ادھر ادھر برسنے کی دعا فرمائی تو وہ بھی فوراً قبول ہوئی، نیز اس میں رسول اللہ ﷺ نے دعا کا ادب بھی سکھایا ہے کہ مطلق طور پر بارش رکنے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ اس قدر دعا کی جس سے نقصان زائل ہو جائے اور نفع باقی رہے۔
(فتح الباري: 653/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1013
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1014
1014. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں اس دروازے سے داخل ہوا جو دارقضاء کی طرف تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ”اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمیں باران رحمت عطا فرما۔ اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔“ حضرت انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک کوئی بارش کا چھوٹا یا بڑا ٹکڑا نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا حویلی ہی حائل تھی۔ اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک چھوٹا سا بادل نمودار ہوا۔ جب وہ آسمان کے درمیان آیا تو پھیل گیا، پھر برسنے لگا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ پھر اگلے جمعے ایک شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1014]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بارش کی دعا کے لیے قبلہ رو ہونا ضروری نہیں بلکہ جیسے بھی ممکن ہو کی جا سکتی ہے، البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک اور بات کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ بارش اللہ کی رحمت ہے بوقت قحط اس کے لیے دعا کرنا مشروع ہے، اسی طرح یہ بارش باعث زحمت بن جائے تو اسے روکنے کی دعا کرنا بھی جائز ہے۔
جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں دار القضاء کا لفظ آیا ہے جس کے معنی عام طور پر عدالت کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں بلکہ دار القضاء اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس جگہ کو حضرت عمر ؓ کے ذمے قرض کے عوض فروخت کیا گیا تھا، یعنی ان کا قرض اتارنے کے لیے اسے بیچا گیا تھا۔
اسے پہلے دار قضائے دین عمر کہتے تھے، بعد ازاں دار القضاء کے نام سے مشہور ہو گیا۔
(فتح الباري: 647/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1014
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1015
1015. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر باران رحمت نازل فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہم پر بارش برسنے لگی، ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں کو پہنچے، چنانچہ آئندہ جمعہ تک ہم پر بارش برستی رہی۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ (اگلے جمعے) وہی شخص یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے بارش روک لے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو ہم پر نہ ہو۔“ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے بادل کو چھٹ کر دائیں بائیں جاتے دیکھا، پھر دوسرے لوگوں پر تو بارش ہوتی رہی لیکن اہل مدینہ پر نہیں ہو رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1015]
حدیث حاشیہ:
(1)
مالکیہ کا موقف ہے کہ منبر پر بارش کی دعا کرنا تضرع اور انکسار کے خلاف ہے جو اس موقع پر درکار ہوتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔
اگرچہ اس حدیث میں منبر کی صراحت نہیں، تاہم خطبۂ جمعہ کے لیے منبر ہوتا تھا، اس لیے دوران خطبہ میں بارش کی دعا بھی منبر ہی پر کی گئی۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں صراحت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر فروکش ہوئے، لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور دعا مانگی۔
(سنن أبي داود، صلاة الاستسقاء، حدیث: 1173) (2)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کو آئندہ جمعہ کھڑے ہو کر عرض کرنے والے شخص کے متعلق شک تھا کہ یہ وہی پہلا شخص ہے یا کوئی اور۔
اس سے قبل حدیث میں راوئ حدیث شریک کے سوال کرنے پر انہوں نے اسی شک کا اظہار کیا لیکن مسند ابی عوانہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے فرمایا:
وہی شخص آئندہ جمعہ کو کھڑا ہوا۔
شاید حضرت انس ؓ بھول کا شکار ہو گئے ہوں۔
امام بیہقی ؒ کی بیان کردہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت خارجہ بن حصن ؓ تھے جو حضرت عیینہ بن حصن کے بھائی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے تو حضرت خارجہ کی سربراہی میں بنو فزارہ کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارانِ رحمت طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔
(فتح الباري: 651/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1015
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1016
1016. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: مویشی ہلاک ہونے لگے اور راستے مسدود ہو گئے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بارش کی دعا کی تو دوسرے جمعہ تک ہم پر بارش ہوتی رہی پھر کوئی شخص آیا اور کہنے لگا کہ (بارش کی وجہ سے) مکانات گرنے لگے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، اللہ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں پر بارش برسا۔“ چنانچہ مدینہ منورہ سے کپڑا پھٹنے کی طرح بادل چھٹ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1016]
حدیث حاشیہ:
بارش کے لیے دعا کے مختلف طریقے ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔
اس کے لیے نماز جمعہ پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، الگ سے نماز کا اہتمام ضروری نہیں۔
ہاں! اگر باہر میدان میں جائیں تو پھر الگ نماز کا اہتمام ضروری ہے۔
بہرحال یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی جو استسقاء کے لیے نماز کی مشروعیت کے قائل نہیں۔
(فتح الباری: 665/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1016
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1017
1017. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! قحط سالی کی وجہ سے مال مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے (بارش کی) دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ان پر بارش برستی رہی۔ پھر ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! کثرت باراں سے گھر منہدم، راستے تباہ اور مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی:”اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ریت کے ٹیلوں، نشیبی وادیوں اور درخت اُگنے کے مقامات پر بارش برسا۔“ اس کے بعد مدینہ منورہ سے اس طرح بادل چھٹ گئے جس طرح کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1017]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کثرت بارش کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہو تو اس کے رکنے کی دعا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے باہر کا رخ کرنا، چادر پلٹنا، خطبہ اور نماز وغیرہ کا اہتمام ضروری نہیں بلکہ کسی بھی وقت عام انداز میں دعا کی جا سکتی ہے۔
(2)
واضح رہے کہ بارش کا پانی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کے بند ہونے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ جہاں مفید ہو اسے وہاں برسنا چاہیے۔
آپ نے ان مقامات کی نشاندہی بھی فرمائی جہاں برسنے سے اس کے فوائد حاصل ہو سکتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1017
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1018
1018. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے ہاں مال کے ہلاک ہونے اور اہل و عیال کے مشقت میں مبتلا ہونے کی شکایت کی تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائی۔ حضرت انس ؓ نے چادر پلٹنے یا استقبالِ قبلہ کا ذکر نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1018]
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ استسقاء کے موقع پر آپ نے اپنی چادر کو نہیں پلٹا تھا۔
اس کی بھی کوئی اصل ہے، یعنی چادر کو الٹنا اور نہ الٹنا دونوں رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔
لیکن امام بخاری ؒ کے انداز اور اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ استسقاء کے موقع پر چادر کو نہ الٹنا اصل نہیں بلکہ اسے آپ نے لفظ قبل سے بیان کیا ہے، کیونکہ روایات میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ آپ نے اپنی چادر کو الٹ پلٹ نہیں کیا، البتہ راوی کا بیان ہے کہ میرے شیخ نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
راوی کا اس کے متعلق سکوت اختیار کرنا عدم وقوع کی دلیل نہیں، تاہم رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران خطبہ میں بارش کے لیے جو دعا کی اس میں واقعی چادر کو نہیں پلٹا۔
جب باہر جا کر اس کا خصوصی اہتمام کیا تو نہ صرف آپ بلکہ لوگ بھی اس عمل کو رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں بجا لائے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر کے ظاہری حصے کو باطنی حصے کی طرف پھیر دیا اور لوگوں نے بھی اپنی چادروں کو الٹ پلٹ کیا۔
(مسند أحمد: 41/4)
لیکن علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے متعلق جو الفاظ ہیں وہ شاذ ہیں۔
(تمام المنة، ص: 264)
اس روایت میں اگرچہ جمعہ کا ذکر نہیں، کیونکہ امام بخاری ؒ نے اسے انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے، لیکن تفصیل کے ساتھ یہ روایت آگے (نمبر: 1033 میں)
آ رہی ہے۔
اس میں دوران جمعہ دعا کرنے کے الفاظ ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1019
1019. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مویشی تباہ اور راستے بند ہو گئے ہیں، آپ اللہ سے بارش کی دعا فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی۔ اس کے نتیجے میں اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مکانات منہدم ہو گئے، راستے ٹوٹ پھوٹ گئے اور مویشی تباہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ریت کے ٹیلوں، ندیوں اور باغوں پر بارش برسا۔“ اس کے بعد بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جس طرح کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1019]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے پہلے عنوان قائم کیا تھا:
(باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا)
”قحط کے زمانے میں لوگوں کا امام سے بارانِ رحمت کے لیے دعا کی اپیل کرنا۔
“ ان دونوں عناوین میں فرق یہ ہے کہ پہلے عنوان میں لوگوں کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ ایسے حالات میں امام سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کریں، جبکہ اس باب میں امام کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ ان کی اپیل مسترد نہ کرے بلکہ ہر وہ کام جس میں رعایا کا فائدہ ہو اس کی تکمیل کرے کیونکہ رعایا کی حفاظت امام پر لازم ہے اور قیامت کے دن اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔
(فتح الباري: 557/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1019
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1021
1021. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو کچھ لوگ اٹھ کر بول پڑے۔ انہوں نے فریاد کی: اللہ کے رسول! بارش نہیں ہو رہی، درخت پیلے ہو گئے اور مویشی مرنے لگے، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! ہمیں سیراب فرما۔“ اللہ کی قسم! ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دیتا تھا کہ اچانک ابر نمودار ہوا اور برسنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے اور نماز پڑھی، پھر واپس گھر کو لوٹے یہ بارش اگلے جمعے تک برستی رہی۔ دوسرے جمعہ جب نبی ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ پھر بلند آواز سے بولے کہ مکانات گر گئے اور راستے بند ہو گئے، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ نبی ﷺ مسکرائے اور دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔“ اس کے بعد مدینے سے بادل چھٹ گئے۔ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1021]
حدیث حاشیہ:
(1)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کثرت باراں کے وقت جامع اور پرحکمت الفاظ سے دعا کرنی چاہیے کیونکہ بارش اللہ کی رحمت ہے، اسے مطلق طور پر روک دینے کی دعا کرنا مناسب نہیں۔
مناسب یہ ہے کہ اس کے منافع حاصل کرنے کے لیے اور اس کے نقصان سے بچنے کے لیے دعا کی جائے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ایسے حالات میں دعا کا ادب بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئے الفاظ سے دعا کی جائے، نیز ایسے حالات میں نماز کے اہتمام اور چادر پلٹنے کی ضرورت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1021
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1031
1031. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بارش کی دعا کے علاوہ اور کسی موقع پر دعا کرتے وقت (زیادہ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور بارش کی دعا میں اس قدر ہاتھ بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1031]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی دعا کرتے وقت امام کو مبالغے کی حد تک ہاتھ اونچے اٹھانے چاہئیں۔
نیز صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق بارش کی دعا کرتے وقت ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کرنی چاہیے، چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ کسی مصیبت، وبا اور قحط وغیرہ کو رفع کرنے کے لیے دعا کریں تو ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف رکھیں اور اگر کسی چیز کے سوال اور اس کے حصول کی دعا کرنی ہو تو ہاتھوں کی ہتھیلیاں آسمان کی طرف کریں۔
یاد رہے کہ اس حدیث سے دیگر مقامات میں ہاتھ اٹھانے کی نفی ثابت نہیں ہوتی، خود امام بخاری ؒ نے کتاب الدعوات میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ حدیث انس میں ہاتھ نہ اٹھانے سے مبالغہ مقصود ہے مطلق طور پر نفی مراد نہیں۔
(صحیح البخاري، الدعوات، باب رفع الأیدي في الدعاء قبل حدیث: 8341) (2)
اس طرح دعا کرنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ حالات کو بدل دے اور بدحالی کی جگہ خوشحالی لے آئے جیسا کہ چادر پلٹنے میں ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 687/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1031
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1033
1033. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا، چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران میں ایک دیہاتی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مال مویشی تباہ ہو گئے اور بچے بھوک سے مرنے لگے، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) دونوں ہاتھ اٹھا لیے جبکہ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ بادل ایسے اٹھا جیسے پہاڑ ہوتے ہیں۔ ابھی رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے نہیں تھے کہ میں نے دیکھا بارش آپ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہی تھی۔ تمام دن بارش ہوتی رہی، کل، پرسوں اور ترسوں، بعد ازاں دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مکانات گرنے لگے اور مویشی ڈوبنے لگے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1033]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ایک روایت کی طرف اشارہ کر کے اس کی تائید فرمائی ہے، جسے حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارش کی لپیٹ میں آ گئے۔
آپ نے اپنے بدن سے کپڑا ہٹا لیا حتی کہ آپ کے بدن پر بارش گرنے لگی۔
آپ نے فرمایا:
”یہ بارش اپنے رب کے حکم سے ابھی ابھی عالم قدس سے نازل شدہ ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حدیث: 2083 (898) (2)
روایت میں آپ ﷺ کی داڑھی مبارک پر بارش کا برسنا اتفاقی طور پر نہیں تھا بلکہ آپ نے قصداً ایسا کیا، وگرنہ جب مسجد کی چھت ٹپکی تھی تو آپ اسی وقت منبر سے اتر کر ایک طرف ہو سکتے تھے، لیکن آپ نے خطبہ جاری رکھا حتی کہ آپ کی داڑھی سے پانی ٹپکنے لگا۔
(فتح الباري: 670/2) (3)
واضح رہے کہ قحط میں مبتلا ہونے اور بارش کی دعا کرنے کے متعلق چار واقعات ہیں جو مختلف ادوار میں پیش آئے ہیں:
٭ ہجرت سے پہلے جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر کسی مردار کی اوجھڑی رکھ دی تھی تو آپ نے قحط سالی کی بددعا کی، پھر ابو سفیان کی درخواست پر بارش کی دعا فرمائی۔
٭ ایک واقعہ 4 ہجری میں پیش آیا جب آپ نے قبیلۂ مضر کے متعلق قحط سالی میں مبتلا ہونے کی بددعا کی تھی۔
یہ وہی قبیلہ ہے جو وفد عبدالقیس سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا۔
٭ 6 ہجری میں آپ نے باہر جا کر باقاعدہ نماز اور دعا کا اہتمام فرمایا، اس میں چادر بھی پلٹی اور آسمان کی طرف الٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
٭ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد 9 ہجری میں خارجہ بن حصن کی درخواست پر جمعہ کے دن دورانِ خطبہ بارش کی دعا فرمائی جس کے نتیجے میں پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔
مذکورہ حدیث میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے۔
بہرحال یہ چار واقعات ہیں جنہیں راویانِ حدیث نے باہم خلط ملط کر دیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1033
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3565
3565. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں (مبالغہ کے ساتھ) ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ نماز استسقاء میں اس حد تک اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی جاسکتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3565]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر اور نورانی بغلوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ آپ کی بغلیں بالکل صاف اور سفید تھیں،بلکہ بدن کے دوسرے حصے کی طرح عطر بیز اور خوشبودار تھیں جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کی خوشبو سے بڑھ کر میں نے کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کا پسینہ کستوری سے بھی زیادہ خوشبودار تھا۔
(سنن الدارمي: 31/1)
جبکہ عام انسان کی بغلوں سے گندی اور بدبودار ہواآتی ہے کیونکہ انھیں کسی طرف سے ہوا نہیں لگتی۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں دوسرے جسم کی طرح بالکل صاف ہوتی تھیں بلکہ ان کے پسینے سے خوشبو آتی تھی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3565
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3582
3582. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ کو قحط سالی نے آلیا۔ چنانچہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ!گھوڑے اور بکریاں ہلاک ہوگئیں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر بارش برسائے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آسمان شیشے کی طرح بالکل صاف تھا۔ اچانک ہوا چلی، بادل پیدا ہوئے، پھر وہ گھنے ہوگئے۔ اس کے بعد آسمان نے اپنا منہ کھول دیا، چنانچہ ہم پانی میں بھیگتے ہوئے باہر نکلے حتیٰ کہ بمشکل اپنے گھروں میں آئے۔ دوسرے جمعہ تک بارش ہوئی۔ پھر وہ شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ!اب تو مکانات گرنے لگے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش روک لے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے دعا فرمائی: ”اے اللہ! یہ بارش ہمارے اردگرد ہو، ہم پر نہ ہو۔“حضرت انس ؓ نے کہا: میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3582]
حدیث حاشیہ:
1۔
جس شخص نے کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تھی وہ خارجہ بن حصن فزاری ؓ تھے۔
2۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ ہے کہ جب آپ نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائی تو آسمان شیشے کی طرح صاف تھا۔
بادل کا نا م ونشان تک نہ تھا اچانک پہاڑوں کی طرح بادل آئےموسلا دھار بارش ہوئی اور یکسر قحط سالی کا سماں خوشحالی سے بدل گیا وادی قتادہ ایک مہینہ پانی سے بہتی رہی ہر طرف سے سیرابی اور پیدا وار ہونے کے پیغام آئے پھر آپ نے آئندہ جمعہ دعا فرمائی اے اللہ!اب مدینہ طیبہ پر نہیں بلکہ چھوٹےبڑے پہاڑوں ٹیلوں،جنگلات اور ندیوں پر بارش برسا۔
آپ جدھر اشارہ فرماتے ادھرسے بادل چھٹ جاتا۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے کے بعد فوراً بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔
(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 101)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6093
6093. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن نبی ﷺ کے پاس جبکہ آپ مدینہ طیبہ میں خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے عرض کی: بارش کا قحط پڑ گیا ہے لہذا آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کریں۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہمیں کہیں بھی بادل نظر نہیں آ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے بارش کی دعا کی تو بادل اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف جانے لگے۔ پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعے تک اسی طرح بارش ہوتی رہی اور وہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ آئندہ جمعہ وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا جبکہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے اس نے کہا ہم ڈوب گئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اب بارش بند کر دے۔ آپ ﷺ ہنس پڑے پھر دعا کی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش ہو، ہم پر نہ برسے۔“ دو تین مرتبہ آپ نے اس طرح فرمایا چنانچہ مدینہ طیبہ سے دائیں بائیں بادل چھٹنے لگے ہمارے ارد گرد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6093]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کا ذکر ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا اکثر طور پر تبسم کے طور پر ہوتا تھا، لیکن ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر کھل کر ہنسے کہ آپ کے آخری دانت (نواجذ)
ظاہر ہو گئے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6087)
اور قبل ازیں ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کھل کر نہیں ہنسے تھے یہاں تک کہ آپ کے تالو کا گوشت نظر آ جاتا، آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔
ان احادیث میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا ہے، الگ الگ مقامات کا بیان ہے۔
(2)
بہرحال ہمارے ہاں جس طرح مجالس کو کشت زعفران بنانے کا رواج چل نکلا ہے، یہ اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔
ہمیں چاہیے کہ افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6093
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6342
6342. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے۔ اس دوران میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے کرنے لگا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے بارش کی دعا کریں۔ آپ نے دعا کی تو آسمان پر بادل آگئے اور بارش برسنے لگی۔ بارش اس قدر ہوئی کہ آدمی اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہ بارش آئندہ جمعہ تک ہوتی رہی۔ پھر وہی آدمی یا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں بارش بند کر دے۔ ہم تو ڈوبنے لگے ہیں آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر اسے بند کر دے۔“ چنانچہ بادل ٹکڑے ٹکڑے مدینہ طیبہ کے ارد گرد پھیل گئے اور اہل مدینہ پر بارش رک گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6342]
حدیث حاشیہ:
(1)
خطیب، خطبے میں سامعین کی طرف منہ کرتا ہے اور قبلے کی جانب اس کی پشت ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں دعا فرمائی۔
کسی حدیث میں اس امر کا ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بار قبلے کی طرف منہ کر کے دعا کی ہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا کرنا بھی جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے، چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ جمعہ کے دن دعائے استسقاء کرنے کے متعلق کسی بھی روایت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو پھیرا ہو اور قبلہ کی طرف منہ کیا ہو۔
(صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1018)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6342