Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة
ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
253. باب التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ
باب: عیدین کی تکبیرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1152
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ حَيَّانَ، عَنْ أَبِي يَعْلَى الطَّائِفِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ الْأُولَى سَبْعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُكَبِّرُ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يَرْكَعُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ وَكِيعٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَا:" سَبْعًا وَخَمْسًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله أكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: 1151، (تحفة الأشراف: 8728) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن «أربعاً» کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ «خمساً» ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح دون قوله أربعا والصواب خمسا كما يأتي من المؤلف معلقا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو خالد الاحمر سليمان بن حيان مدلس وعنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 51

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1152 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1152  
1152۔ اردو حاشیہ:
یعنی دوسری رکعت میں چار تکبیروں کا ذکر سلمان بن حیان کا وہم ہے، صحیح پانچ ہیں جیسے کہ امام وکیع اور ابن مبارک کا بیان ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی پانچ تکبیرات والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 395  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عید الفطر کی نماز کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ ہیں۔ دونوں رکعتوں میں قرآت تکبیرات کے بعد ہے۔
اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کی صحت نقل کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 395»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب التكبيرفي العيدين، حديث:1151، والترمذي في علل الكبير:1 /88.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عیدین کی بارہ تکبیریں زائد ہیں۔
مگر اس کی سند میں بعض حضرات نے کلام کیا ہے کہ اگر جدہ سے عمرو کا دادا محمد بن عبداللہ مراد ہے تو یہ روایت مرسل ہے کیونکہ محمد بن عبداللہ تابعی ہیں اور اگر شعیب کے دادا عبداللہ مراد ہیں تو شعیب کا ان سے سماع ثابت نہیں‘ اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔
لیکن یہ بات غلط ہے‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کی تردید کی ہے اور شعیب کا اپنے دادا سے سماع ثابت کیا ہے۔
اور یہاں جدہ سے مراد شعیب ہی کا دادا ہے۔
2. جمہور ائمۂجرح و تعدیل اس سند کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام احمد‘ امام علی بن مدینی‘ امام اسحق‘ امام ابوعبیدہ‘ امام بخاری‘ امام دارقطنی اور امام دارمی رحمہم اللہ وغیرہم نے اسے صحیح کہا ہے۔
بلکہ فقہائے اربعہ بھی اس سند سے استدلال کرتے اور اسے صحیح کہتے ہیں۔
3.امام ترمذی رحمہ اللہ سے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
اس کے بارے میں صاحب سبل السلام نے کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں عمرو بن شعیب کی روایت ہی نقل نہیں کی‘ معلوم نہیں کہ حافظ ابن حجر نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول کو کہاں سے نقل کیا ہے؟ میں نے اس کے متعلق تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی العلل الکبیر میں نقل کی ہے۔
حافظ زیلعی نے نصب الرایہ: ۲ /۲۱۷ میں بھی اسی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔
4.اس حدیث کی تائید حضرت عائشہ‘ حضرت سعد‘ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے بھی ہوتی ہے مگر ان میں کلام ہے۔
اکثر صحابہ و تابعین اور فقہائے مدینہ کے علاوہ امام احمد اور امام شافعی ; وغیرہ کا بھی اسی حدیث کے مطابق عمل ہے۔
5. شارح ترمذی‘ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں مستقل رسالہ القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید قابل دید ہے۔
6. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر فقہائے کوفہ چھ تکبیروں کے قائل ہیں۔
تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے‘ مگر اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت ثابت نہیں۔
جمہور صحابہ و تابعین کا عمل ہی راجح اور دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔
7. تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
امام ابن حزم اس کی بابت لکھتے ہیں: «لَمْ یَصِحَّ قَطُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَفَعَ فِیہِ یَدَیْہِ» (المحلی:۵ / ۸۳‘ ۸۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کیا ہے۔
محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہے۔
(إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۴) تاہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت ائمہ کے اقوال ضرور ملتے ہیں۔
عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا: کیا امام نماز عیدین میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ وہ رفع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں۔
(المصنف لعبد الرزاق: ۳ /۲۹۷) نیز امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے موقع پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔
(الفریابي بحوالہ إرواء الغلیل: ۳ / ۱۱۳) اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں۔
(الأم: ۱ / ۲۳۷) لہٰذا ان اقوال کی روشنی میں اگر کوئی تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور کوئی نہیں کرتا تو اس کا بھی جواز ہے۔
اس میں تشدد نامناسب ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 395