صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
52. بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا:
باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے؟
حدیث نمبر: 1475
وَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَزَادَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، فَيَشْفَعُ لِيُقْضَى بَيْنَ الْخَلْقِ فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ الْبَابِ، فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا يَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ كُلُّهُمْ، وَقَالَ مُعَلًّى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْأَلَةِ.
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو ”مقام محمود“ عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1475 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1475
حدیث حاشیہ:
حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔
سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں:
وَهِي على ثَلَاثَة أوجه:
حرَام ومكروه ومباح. فالحرام لمن سَأَلَ وَهُوَ غَنِي من زَكَاة أَو أظهر من الْفقر فَوق مَا هُوَ بِهِ. وَالْمَكْرُوه لمن سَأَلَ وَعِنْده مَا يمنعهُ عَن ذَلِك وَلم يظْهر من الْفقر مَا هُوَ بِهِ، والمباح لمن سَأَلَ بِالْمَعْرُوفِ قَرِيبا أَو صديقا. وَأما السُّؤَال عِنْد الضَّرُورَة فَوَاجِب لإحياء النَّفس. وَأدْخلهُ الدَّاودِيّ فِي الْمُبَاح. وَأما الْأَخْذ من غير مَسْأَلَة وَلَا إشراف نفس فَلَا بَأْس بِهِ. (عیني)
یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔
حرام‘ مکروہ اور مباح۔
حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔
مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔
اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔
بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔
جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ ﷺ نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔
اللهم ارزقنا شفاعة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم یوم القیامة۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1475
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1475
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنی ضرورت کے پیش نظر نہیں بلکہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا پھرے وہ قیامت کے دن بہت ذلیل و خوار ہو گا۔
بلاوجہ لوگوں سے سوال کرنے کی سزا میں اس کے چہرے کی رونق کو ختم کر دیا جائے گا، صرف ہڈیاں ہی رہ جائیں گی۔
ایسی بھیانک اور قبیح شکل میں قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور پیش ہو گا، اس وقت اذیت کا یہ عالم ہو گا کہ سورج بالکل قریب کر دیا جائے گا جو اپنی حدت اور شدت سے اس کی ہڈیوں کو خاکستر کر دے گا۔
امام بخاری ؒ نے حدیث سفارش کو اسی مناسبت سے بیان کیا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص مجبور ہو کر سوال کرے جبکہ وہ سخت محتاج ہو تو وہ اس قسم کی سزا سے محفوظ ہو گا، کیونکہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا مباح ہے۔
(فتح الباري: 427/3) (2)
معلیٰ بن اسعد کی معلق روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا تک نہیں ہو گا، اس روایت میں سورج کے قریب ہونے اور سفارش وغیرہ کا ذکر نہیں۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 196/4، وعمدةالقاري: 506/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1475