Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة
ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
219. باب إِذَا وَافَقَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ يَوْمَ عِيدٍ
باب: جمعہ اور عید ایک دن پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟
حدیث نمبر: 1070
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ الشَّامِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ: أَشَهِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ صَنَعَ؟ قَالَ: صَلَّى الْعِيدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، فَقَالَ:" مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ".
ایاس بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/العیدین 31 (1592)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 166 (1310)، (تحفة الأشراف: 3657)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/372)، سنن الدارمی/الصلاة 225 (1653) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی نماز کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہر پڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہو گا، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا: ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (1592 وسنده حسن) وابن ماجه (310 وسنده حسن) وصححه ابن خزيمة (1464 وسنده حسن)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1070 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1070  
1070۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث اور دیگر بعض آثار سے یہی ثابت ہے کہ اگر عید اور جمعہ دونوں ایک ہی دن میں اکھٹے ہو جائیں تو عید پڑھنے کے بعد جمعہ کی رخصت ہے چاہے جمعہ پڑھے یا ظہر، لیکن جمعہ پڑھنا مستحب ہے۔ افضل یہ ہے کہ امام استحباب پر عمل کرے نہ کہ رخصت پر تاکہ جمعہ پڑھنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہ ہو الا یہ کہ نمازیوں کی تعداد محدود ہو اور سب کے اتفاق سے جمعہ نہ پڑھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہو۔ اس صورت میں کسی صورت میں کسی نمازی کو پریشانی نہیں ہو گی بلکہ سب نماز ظہر ادا کر لیں گے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1070   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1592  
´عید کی نماز پڑھنے والے کے لیے جمعہ سے غیر حاضر رہنے کی رخصت کا بیان۔`
ایاس بن ابی رملہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنا، انہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدین میں رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے صبح میں عید کی نماز پڑھی، پھر آپ نے جمعہ نہ پڑھنے کی رخصت دی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1592]
1592۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے ‘حدیث‘1591۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 366  
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید پڑھی اور جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا جو پڑھنا چاہے پڑھ لے۔
اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ بجز ترمذی کے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 366»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عيد، حديث:1070، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1592، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1310، وأحمد:4 /372، وابن خزيمة:2 /359، حديث:1464.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ایک ہی دن میں جمعہ اور عید آگئی تو آپ نے نماز عید ادا فرمائی اور جمعہ کو ہر آدمی کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
ابوداود میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے‘ آپ نے فرمایا: اس دن دو عیدوں کا اجتماع ہوگیا ہے‘ چنانچہ جو چاہے عید کی نماز کو کافی سمجھ لے‘ البتہ ہم جمعہ ضرور ادا کریں گے۔
(سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب إذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید‘ حدیث:۱۰۷۳) 2. اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اگر عید کے روز جمعہ ہو تو عید پڑھنے کے بعد جمعہ ادا کرنا فرض نہیں رہتا بلکہ ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے‘ اس لیے دور دراز سے آنے والے اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مگر احناف اس کے قائل نہیں۔
3.عوام کا یہ تصور کہ عید اور جمعہ اکٹھے ایک ہی دن آجائیں تو برسر اقتدار حکومت کا زوال ہوتا ہے‘ یہ سراسر وہم پر مبنی ہے۔
آپ نے تو اسے دو عیدوں کا دن قرار دیا ہے مگر بے خبری میں عوام اس سے بدشگونی لیتے ہیں جو قطعاً غلط ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 366