سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة
ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
218. باب الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى
باب: دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1069
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ أَبِيهِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ بَصَرُهُ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَرَحَّمَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِذَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ تَرَحَّمْتَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ: لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ بِنَا فِي هَزْمِ النَّبِيتِ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ فِي نَقِيعٍ، يُقَالُ لَهُ: نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ، قُلْتُ: كَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ.
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی بصارت چلی جانے کے بعد وہ ان کے راہبر تھے، وہ کہتے ہیں کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کرتے، عبدالرحمٰن بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ جب آپ اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں ان کے لیے رحمت کی دعا اس لیے کرتا ہوں کہ یہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں قبیلہ بنو بیاضہ کے حرہ نقیع الخضمات میں واقع (بستی، گاؤں) ھزم النبیت ۱؎ میں جمعہ کی نماز پڑھائی، میں نے پوچھا: اس دن آپ لوگ کتنے تھے؟ کہا: ہم چالیس تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 78 (1082)، (تحفة الأشراف: 11149) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام ہزم النبیت تھا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند ابن خزيمة (1724 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1069 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1069
1069۔ اردو حاشیہ:
بنو بیاضہ انصار کی ایک شاخ ہے۔ ”حرہ“ ایسی سنگلاخ زمین کو کہتے ہیں جس میں سیاہ پتھر ہوں۔ یہ بستی مدینے میں ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
➋ ان حضرات کا چالیس کی تعداد میں ہونا ایک اتفاقی عدد اور خبر ہے ورنہ صحت جمعہ کے لئے افراد کی تعداد متعین ہونے کی بابت کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ اگر یہ استدلال تسلیم کر لیا جائے۔ تو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نمازوں کی جماعت کے اثبات کے لئے بھی افراد کی تعداد کا تعین اور اس کی دلیل طلب کرنی پڑے گی۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: [السيل الجرار: 297/1]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1069