Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
202. باب مَنْ قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ وَلَمْ يَتَشَهَّدْ
باب: دو رکعت پر بغیر تشہد پڑھے اٹھ جائے تو کیا سجدہ سہو کرے؟
حدیث نمبر: 1034
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، أَنَّهُ قَالَ:" صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْتَظَرْنَا التَّسْلِيمَ كَبَّرَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، ثُمَّ سَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہو گئے اور قعدہ (تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله أكبر کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 146 (829)، 147 (830)، والسھو 1 (1224)، 5 (1230)، والأیمان 15 (6670)، صحیح مسلم/المساجد 19 (570)، سنن الترمذی/الصلاة 172 (391)، سنن النسائی/التطبیق 106 (1178، 1179)، والسھو 28 (1262)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 131 (1206)، (تحفة الأشراف: 9154)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 17(65)، مسند احمد (5/345، 346)، سنن الدارمی/الصلاة 176 (1540) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1224) صحيح مسلم (570)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1034 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1034  
1034۔ اردو حاشیہ:
➊ مقتدیوں پر امام کی اقتداء واجب ہے، خواہ وہ بھو ل رہا ہو۔ امام کو متنبہ کرنا ان کا شرعی حق ہے۔
➋ درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
➌ راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام مالک اور بحینہ ان کی والدہ کا نام ہے۔ اس لئے محدث جب ان کا پورا نام عبدا للہ بن مالک بن بحینہ لکھتے ہیں تو ابن بحینہ کے شروع میں ہمزہ ضرور لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ عبداللہ کی صفت ہے نہ کہ مالک کی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1034   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 137  
´اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو کیا کرے`
«. . . 489- وعن يحيى بن سعيد عن عبد الرحمن الأعرج عن عبد الله بن بحينة أنه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعتوں کے بعد (تشہد میں) بیٹھے بغیر کھڑے ہو گئے۔ جب نماز مکمل ہوئی تو دو سجدے کئے پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 137]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1225، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر نماز میں بھول جائیں تو دو سجدے کئے جاتے ہیں جنھیں سجدہ سہو بھی کہا جاتا ہے۔
➋ سجدۂ سہو دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے بھی جائز ہے اور بعد میں بھی۔ نیز دیکھئے: [الموطأ ح128، 156،البخاري 1228، مسلم 573/97]
➌ بعض لوگ تشہد پڑھ کر صرف ایک طرف سلام پھیرتے ہیں، یہ ثابت نہیں ہے۔
➍ شیعوں کے ایک مشہور امام ابن بابویہ القمی (متوفی 381ھ) لکھتے ہیں: «إن الغلاة والمفوضة لعنهم الله ينكرون سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم يقولون لو جاز أن يسهو عليه السلام فى الصلاة جاز أن يسهو فى التبليغ لأن الصلوة عليه فريضة كما أن التبليغ عليه فريضة وهذا لا يلزمنا۔۔۔ وليس سهو النبى صلّى الله عليه وآله وسلم كسهونا لأن سهوه من الله عزوجل وإنما أسهاه ليعلم أنه بشر مخلوق فلا يتخذ ربًا معبودًا دونه وليعلم الناس يسهوه حكم السهو متي سهوا وسهونا عن الشيطان۔۔۔»
اللہ غالیوں اور مفوضہ پر لعنت کرے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کا انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر آپ علیہ السلام سے نماز میں سہو ہونا جائز ہے تو تبلیغ میں سہو ہونا بھی جائز ہے کیونکہ آپ پر جس طرح تبلیغ فرض ہے اُسی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اور یہ ہمیں لازم نہیں آتا۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو ہماری سہو کی طرح نہیں ہے کیونکہ آپ کا بھولنا تو اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور اس نے آپ کو صرف اس لئے بھلایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ بشر، مخلوق ہیں تاکہ آپ کو اللہ کے علاوہ رب معبود نہ بنا لیا جائے اور لوگوں کو جب سہو ہو تو آپ کے سہو سے سہو کا حکم معلوم ہو جائے اور ہمارا بھولنا شیطان کی طرف سے ہے۔۔۔ [من لا يحضره الفقيه ج1 ص234]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 489   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 134  
´نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے`
«. . . عن عبد الله بن بحينة انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام فلم يجلس فقام الناس معه. فلما قضى صلاته وانتظرنا تسليمه كبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل السلام، ثم سلم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے (اور تشہد کے لئے) نہ بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی اور ہم آپ کے سلام کا انتظار کرنے لگے تو آپ نے تکبیر کہی اور دو سجدے سلام سے پہلے بیٹھے ہوئے کئے پھر آپ نے سلام پھیرا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 134]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1224، و مسلم 570، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مخلوقات میں سے کوئی بھی وہم اور نسیان سے محفوظ نہیں ہے سوائے اس کے جسے اللہ محفوظ رکھے۔
➋ اگر نمازی پہلے تشہد میں سہواً کھڑا ہو جائے تو اسے بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ نماز مکمل کر کے آخر میں سجدہ سہو یعنی دو سجدے سلام سے پہلے یا بعد میں کر لینے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھ جائے تو جمہور علماء کے نزدیک اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ دیکھئے: [التمهيد 10/185]
➌ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو تیسری رکعت میں (تشہد کے بغیر) کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا: تو آپ نہیں بیٹھے بلکہ لوگوں کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا پھر نماز پڑھ کر (آخر میں) دو سجدے کئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 34/2 ح4493 و سنده صحيح]
اس مفہوم کی مفصل روایت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 1/325 ح1214]، [والاوسط لابن المنذر 3/288 وسنده صحيح]
➍ سجدہ سہو میں ایک طرف سلام پھیرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
➎ اگر امام نماز میں بھول جائے اور بعد میں سجدہ سہو بھی بھول جائے تو حکم بن عتیبہ کے نزدیک مقتدیوں کو سجدہ سہو کرنا چاہئیے اور حماد بن ابی سلیمان کے نزدیک ان پر سجدہ سہو نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/39 ح4525 وسنده صحيح]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث صحيح بخاري [1226]، صحيح مسلم [572] سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام سجدہ سہو بھول جائے تو سلام پھیرنے کے بعد بھی وہ دو سجدے (لوگوں کے ساتھ) کر لے۔
➏ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ نماز میں رکوع، سجود، قیام اور آخری جلسہ فرض ہے۔ [التمهيد 10/189] لہٰذا ان میں سے جو رہ گیا تو رکعت رہ گئی، اس رکعت کا اعادہ کرنا پڑے گا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 81   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1179  
´پہلا تشہد بھول کر چھوڑ دینے کا بیان۔`
ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، تو دوسری رکعت میں کھڑے ہو گئے، لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نے نماز جاری رکھی، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدہ کیا، پھر سلام پھیرا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1179]
1179۔ اردو حاشیہ:
➊ اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہو سکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو فرمایا تھا: «جلَستَ في وَسَطِ الصَّلاةِ فاطمَئنَّ وافتَرِشْ فَخِذَكَ اليُسرى، ثمَّ تَشهَّدْ……» جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو…… [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 860] اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثم إذا قمتَ فمثلُ ذلكَ حتى تفرغَ من صلاتِك» پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 310/2، تحت حدیث: 829، و ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 144، 143/11]
➋ اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا ہو جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔
➌ اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔
➍ مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔
➎ سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سجود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ)
➏ بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کو بھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1179   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1224  
´جو شخص دو رکعت کے بعد بھول کر کھڑا ہو جائے اور تشہد نہ پڑھے وہ کیا کرے؟`
عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے حالانکہ آپ کو تشہد کے لیے بیٹھنا چاہیئے تھا، تو آپ نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1224]
1224۔ اردو حاشیہ: مذکورہ احادیث میں سجود و سہو سلام سے پہلے کرنے کا ذکر ہے لیکن اہل علم کا اس مسئلے کی بابت دیگر احادیث میں مختلف طریقے بیان ہونے کی وجہ سے اختلاف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلے کے متعلق اہل علم کے آٹھ اقوال نقل کیے ہیں جس کی تفصیل اسی کتاب کے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1224   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 262  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز ظہر پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے تشہد میں نہ بیٹھے اور سیدھے کھڑے ہو گئے اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو لوگ سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی «الله اكبر» کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔
اسے ساتوں یعنی احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے کہ بیٹھے ہوئے ہر سجدہ کے لیے «الله اكبر» کہتے تھے اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ سہو کیا۔ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھنا بھول گئے تھے، اس کی تلافی کے لیے دو سجدے کیے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 262»
تخریج:
«أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
تشریح:
1. عربی میں بھول کے لیے دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک سہو اور دوسرا نسیان۔
پہلے کا اطلاق عموماً افعال کے لیے ہوتا ہے اور دوسرے کا معلومات کے لیے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی آجاتے ہیں۔
علماء میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نسیان کا قائل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ابلاغ احکام الٰہی اور شریعت کے پہنچانے میں نسیان لاحق نہیں ہوا اور لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ (الأعلیٰ ۸۷:۶) باقی جہاں تک سہو کا معاملہ ہے‘ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ آپ سے سہو کا امکان ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔
متعدد صحیح احادیث اس بارے میں کتب احادیث میں موجود ہیں اور بہت سے واقعات عملی طور پر اس کا ثبوت ہیں۔
ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی سہو کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت سمجھتے ہیں۔
غالباً آج تک کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس میں تو بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں صاحب علم و بصیرت لوگ ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
2. دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی نمازی کو تشہد اول بھول جائے تو اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جاتی ہے۔
سجدۂ سہو قبل از سلام کیا جائے یا بعد از سلام؟ احادیث سے آپ کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
زندگی بھر ایک لگے بندھے طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت نہیں ہوتا کہ بس فلاں طریقے پر ساری عمر عمل فرماتے رہے‘ البتہ جب ائمہ رحمہم اللہ کا دور آیا اور تقلید شخصی پر عمل شروع ہوا تو ائمۂ کرام کے مقلدین نے اپنے اپنے دائرے میں صورتیں معین کرلیں۔
3.ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس مقام پر جو طرز عمل اختیار فرمایا وہاں اسی طرح عمل کیا جائے۔
مگر باقی مواقع پر جس طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہو اس پر عمل کرے۔
4.امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (۳ /۱۲۲. ۱۲۸) میں اس طرز عمل کو بہتر قرار دیا ہے کہ نماز میں کمی واقع ہو جانے کی صورت میں سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائے‘ البتہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ کرنا‘ پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرنا‘ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 262   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1206  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، میرا خیال ہے کہ وہ ظہر کی نماز تھی، جب آپ دوسری رکعت میں تھے تو تشہد کیے بغیر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ آخری تشہد میں بیٹھے تو سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درمیانی تشہد بھولے سے رہ جائے تو آخر میں سجدہ سہو کرلینا چاہیے۔

(2)
سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہے۔
اور سلام کے بعد بھی دیکھئے: (حدیث 1213)

(3)
سہو کے دو سجدے ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1207  
´جو شخص بھول سے دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن اعرج سے روایت ہے کہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے ان کو خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دوسری رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، اور تشہد بھول گئے، یہاں تک کہ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے، اور صرف سلام پھیرنا باقی رہ گیا، تو سہو کے دو سجدے کئے، اور سلام پھیرا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1207]
اردو حاشہ:
اس روایت سے پہلی حدیث میں مذکورشک دور ہوگیا۔
اور معلوم ہوگیا کہ وہ نماز عصر کی نہیں ظہر کی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1207   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:927  
927- سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نما ز پڑھائی میرا خیال ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں، تو نماز کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے دو مرتبہ سجدہ سہوکرلیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:927]
فائدہ:
اس حدیث میں سجد سہو کا ذکر ہے، اگر کوئی شخص التحیات بیٹھنا بھول جائے تو اس کی وجہ سے سجدۂ سہو کر لے بعض اہل علم التحیات نہ بیٹھنے کی وجہ سے رکعات دہرانے کا کہتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 927   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1269  
حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر (تیسری کے لیے) کھڑے ہو گئے درمیانی تشہد کے لیے نہ بیٹھے اور لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، تو جب آپﷺ نے نماز ادا کر لی اور ہم نے آپﷺ کے سلام کا انتظار کیا، آپﷺ نے تکبیر کہی اور بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1269]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

عبداللہ بن بحینہ کے بارے میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بحینہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باپ ہے،
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی والدہ (ماں)
کا نام ہے باپ کا نام مالک ہے۔

اگرانسان درمیانی تشہد بھول جائے اور قیام کے قریب یاد آئے تو وہ واپس نہیں آئےگا بلکہ اس کی جگہ سلام سے پہلے دو سجدے کرے گا۔
اگر بیٹھنے کے قریب ہے تو واپس آ جائے گا اور سجدہ سہو نہیں کرے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1269   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1270  
عبداللہ بن بحینہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عبد المطلب کی اولاد کا حلیف تھا اس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں (دوسری رکعت کے بعد) بیٹھنے کی بجائے (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہو گئے، تو جب آپﷺ نے نماز مکمل کر لی، آپﷺ نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے ہر سجدہ کے لیے تکبیر کہہ کر دو سجدے کر لیے اور لوگوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ دو سجدے کیے، اس جلوس (بیٹھنا) کی جگہ جو آپﷺ بھول گئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1270]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

متفق علیہ (بخاری ومسلم)
روایت کی روسے عبداللہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدالمطلب کی اولاد کے حلیف تھے اور سیرت وتاریخ کے ماہرین کے نزدیک مطلب بن عبدمناف کی اولاد کے حلیف تھے۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلا تشہد،
رکوع وسجود یا قیام کی طرح نماز کا رکن یا فرض نہیں ہے،
اس لیے اس کی جگہ سجود سہو کفایت کریں گے،
لیکن رکن کی جگہ یہ کافی نہیں ہوں گے۔
لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ حضرات کے نزدیک پہلا تشہد بھی ضروری ہے لیکن اس کی جگہ،
اس حدیث کی رو سے سجود سہو کفایت کریں گے اور ان کے لیے تکبیر کہنی ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1270   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 830  
830. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کھڑے ہو گئے، حالانکہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ پھر نماز کے آخر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:830]
حدیث حاشیہ:
یعنی تشہد نہیں پڑھا۔
حدیث میں علیه الجلوس کے لفظ بتلاتے ہیں کہ آپ کو بیٹھنا چاہیے تھا مگرآپ بھول گئے جلوس سے تشہد مراد ہے۔
ترجمہ سے باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 830   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
اس میں ان پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ سہو کے سب سجدے سلام کے بعد ہیں۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6670  
6670. حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی اور پہلی دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کر لی تو لوگوں نے آپ کے سلام کا انتظار کیا لیکن آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کیا، پھر سر مبارک اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، اور سجدہ کیا پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور سلام پھیر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6670]
حدیث حاشیہ:
نماز میں ایسی مذکورہ بھول چوک کا کفارہ سجدہ سہو کرنا ہے۔
اس حدیث میں سجدہ سہو ادا کرنے کی وہی ترکیب بیان ہوئی ہے جواہل حدیث کا معمول ہے اوراسی کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6670   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 829  
829. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:829]
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ نے اس مسئلہ پر یوں باب منعقد فرمایا ہے:
باب الأمر بالتشھد الأول وسقوطه بالسھو۔
یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔
حدیث ابن مسعود ؓ میں جو لفظ ''فقولا التحیات'' وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں:
فیه دلیل لمن قال بوجوب التشھد الأوسط وھو أحمد في المشھود عینه واللیث وإسحاق وھو قول الشافعي وإلیه ذھب داود أبو ثور ورواہ النووي عن جمھور المحدثین۔
یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔
حدیث مذکور سے امام بخاری ؒ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگر یہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکور بنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:829  
829. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ۔۔ جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور بنو عبدمناف کے حلیف، نیز نبی ﷺ کے اصحاب سے تھے۔۔ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن انہیں نماز ظہر پڑھائی اور پہلی دو رکعات کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے۔ لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو لوگ انتظار میں تھے کہ اب سلام پھیریں گے آپ نے بیٹھے ہی بیٹھے اللہ أکبر کہا، سلام سے پہلے دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:829]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز میں جو ضروری امور ہیں ان کی دو اقسام ہیں:
ایک وہ ہیں جن کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو سکتی ہے اور دوسرے وہ جن کی بجا آوری ضروری ہوتی ہے۔
اگر وہ رہ جائیں تو ان کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہو سکتی۔
پہلا تشہد ایک ایسا امر ہے کہ اگر رہ جائے تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ممکن ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں نے ترک تشہد پر سبحان اللہ بھی کہا لیکن آپ اسے ادا کرنے کے لیے دوبارہ نہیں بیٹھے بلکہ نماز کے آخر میں سجدۂ سہو سے اس کی تلافی فرمائی ہے۔
اگر فرض، یعنی رکن ہوتا تو اسی وقت بیٹھ جاتے اور اسے بجا لاتے۔
امام شوکانی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
تشہد اول کے لیے حکم ہے، اگر وہ بھول کی وجہ سے رہ جائے تو سجدۂ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔
تشہد اول کے ضروری ہونے کے لیے اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1230) (3)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب احادیث میں لفظ جلوس، کسی قید کے بغیر استعمال ہو تو اس سے مراد جلوس تشہد ہوتا ہے۔
اسی سے حدیث کی عنوان مذکور سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 402/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 829   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:830  
830. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کھڑے ہو گئے، حالانکہ آپ کے ذمے بیٹھنا تھا۔ پھر نماز کے آخر میں بیٹھے بیٹھے آپ نے دو سجدے کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:830]
حدیث حاشیہ:
پہلے باب سے گمان ہو سکتا ہے کہ شاید تشہد اول کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ پہلا تشہد اگرچہ اس قدر لازم نہیں کہ اس کے ترک پر اعادہ ضروری ہو، تاہم اس کی یہ حیثیت ضرور ہے کہ اگر رہ جائے تو اس پر سجدۂ سہو ہے جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ علامہ کرمانی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس سے پہلا باب اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ پہلا تشہد واجب نہیں اور یہ عنوان اس کی مشروعیت بیان کرنے کے لیے، قطع نظر اس کے کہ وہ واجب ہے یا مستحب۔
(فتح الباري: 402/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 830   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1225  
1225. حضرت عبداللہ ابن بحینہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی دو رکعتوں میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے۔ جب آپ اپنی نماز پوری کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے۔ اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1225]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے دوران نماز میں بھولنے کا بیان ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے سبحان اللہ کہا لیکن آپ اپنی نماز میں جاری رہے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1179)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں سجدوں میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت اللہ أکبر کہا۔
(صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1230، و فتح الباري: 121/3)
اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو میں تکبیر بآواز بلند اور درمیانی فاصلہ ہے، نیز پتہ چلا کہ امام کے ساتھ مقتدی بھی سجدہ کریں گے، اگرچہ وہ بھولنے میں امام کے شریک نہ بھی ہوں۔
(فتح الباري: 121/3، 122) (2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک تشہد اول واجب نہیں، چنانچہ انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
تشہد اول غیر واجب ہے۔
آپ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد اول بھول گئے اور کھڑے ہو گئے۔
لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نہ بیٹھے۔
اگر واجب ہوتا تو آپ دوبارہ بیٹھ کر اس کی تلافی کرتے۔
آپ نے صرف سجدۂ سہو پر اکتفا کیا۔
بہرحال اس روایت سے سجدۂ سہو کے ایک سبب کا پتہ چلتا ہے کہ نمازی جب اپنی نماز میں کسی کمی کا مرتکب ہو تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو گی، چنانچہ دیار عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے۔
اس میں فرماتے ہیں کہ سجدۂ سہو کے تین اسباب ہیں:
٭ نماز میں کسی قسم کا اضافہ۔
٭ دوران نماز کسی قسم کی کمی۔
٭ نماز میں شک و شبہ پڑ جانا۔
مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تشہد چھوڑ دینے کی وجہ سے سجدۂ سہو کیا تھا، گویا نماز میں کمی کر دی تھی۔
ہم مذکورہ رسالے سے دوران نماز میں کمی کی بنا پر سجدۂ سہو کے مسائل بیان کرتے ہیں۔
اگر نماز میں کوئی رکن رہ جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر تکبیر تحریمہ ہی رہ گئی، خواہ دانستہ یا بھول کر تو سرے سے نماز نہیں ہو گی کیونکہ تکبیر تحریمہ نماز کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رکن دانستہ چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز باطل ہے کیونکہ جان بوجھ کر کسی رکن کو چھوڑ دینا نماز کو خود ہی باطل کر دینا ہے۔
اگر نادانستہ طور پر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی رکن کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
٭ اگر نمازی اگلی رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچ چکا ہے اور اسے یاد نہیں آتا تو اس صورت میں پہلی رکعت باطل ہو جائے گی، دوسری رکعت خودبخود اس کے قائم مقام ہو گی، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ بھول گیا اور اسے دوسری رکعت میں دو سجدوں کے درمیان بیٹھے ہوئے یاد آیا کہ میں نے پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ نہیں کیا تھا، چونکہ وہ رکن متروک تک پہنچ چکا ہے اور اس کی پہلی رکعت اس کی ادائیگی کے بغیر پڑھی گئی ہے، لہذا پہلی رکعت باطل ہو گی اور دوسری رکعت اس کے قائم مقام ہو گی۔
اس طرح وہ اپنی نماز کو پورا کرے اور سلام پھیر دے، پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر دوسری رکعت میں متروکہ رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے اسے یاد آ گیا کہ میری پہلی رکعت میں دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو فورا اٹھ کر متروکہ رکن ادا کرے۔
اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے، مثلاً:
ایک نمازی پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ اور اس سے قبل بیٹھنا بھول گیا اور اسے دوسری رکعت کے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا کہ میری پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہے تو وہ فوراً بیٹھ جائے اور متروکہ سجدہ کرے۔
اس کے بعد اپنی بقیہ نماز ادا کرے اور سلام پھیر دے۔
پھر سجدۂ سہو کر کے دوبارہ سلام پھیرے۔
اگر نماز میں رکن کے بجائے کوئی دوسرا واجب رہ گیا ہے تو اگر نمازی نے اس واجب کو دانستہ ترک کیا ہے تو اس صورت میں اس کی نماز سرے سے نہیں ہو گی اور اگر بھول کر چھوڑا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں:
٭ جہاں وہ واجب ادا ہوتا ہے اس مقام پر فوراً یاد آ گیا تو اسے مکمل کرے، مثلاً:
ایک نمازی نے دوسری رکعت کے آخری سجدے سے سر اٹھایا اور وہ اپنی دانست کے مطابق تیسری رکعت کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس نے تشہد نہیں پڑھا، لیکن اٹھنے سے پہلے پہلے یاد آ گیا تو اس صورت میں وہ بیٹھا رہے اور تشہد پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے۔
اس قسم کے سہو و نسیان پر کوئی سجدہ نہیں۔
٭ اگر اسے تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے بعد یاد آیا، لیکن ابھی تک پوری طرح سیدھا کھڑا نہیں ہو پایا تھا کہ اسے متروکہ واجب یاد آ گیا تو فورا اٹھ کر تشہد پڑھے اور اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے۔
اس کے بعد سجدۂ سہو کرے اور آخر میں دوبارہ سلام پھیرے۔
٭ اگر اسے دوسرا رکن شروع کرنے کے بعد یاد آیا تو اس صورت میں متروکہ واجب ساقط ہو جائے گا اور وہ اس کے بغیر ہی نماز ادا کرے گا، مثلاً:
نمازی تیسری رکعت ادا کرنے کے لیے تشہد پڑھے بغیر پوری طرح سیدھا کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں تشہد ساقط ہو جائے گا۔
نمازی تشہد کے بغیر ہی اپنی نماز مکمل کرے اور سلام سے قبل سجدۂ سہو کر کے آخر میں سلام پھیر دے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
(سجودالسھو للشیخ محمد بن صالح العثیمین) (3)
امام بخاری ؒ کی پہلی پیش کردہ حدیث میں نماز کی صراحت نہیں تھی جس میں رسول اللہ ﷺ کو سہو ہوا تھا، اس لیے دوسری روایت پیش کی جس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز ظہر میں سہو کا واقعہ پیش آیا تھا۔
آپ کی یہ بھول بھی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔
اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو سہو کے متعدد مسائل ہمیں معلوم نہ ہوتے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1230  
1230. حضرت عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ، جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے،سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہو گئے جبکہ آپ کو بیٹھ کر تشہد پڑھنا تھا۔ جب آپ نماز مکمل کرنے قریب تھے تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے قبل دو سجدے کیے اور ان کے لیے اللہ أکبر بھی کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کیے۔ یہ اس تشہد کی جگہ تھے جسے آپ بھول گئے تھے۔ امام ابن شہاب سے تکبیر کا لفظ بیان کرنے میں ابن جریج نے لیث کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1230]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سجدۂ سہو کے لیے الگ سے تکبیر تحریمہ کہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ سجدے کو جاتے ہوئے ایک دفعہ اللہ أکبر کہنا ہی کافی ہے۔
تکبیر تحریمہ کہنے کے متعلق سنن ابی داود کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر اللہ أکبر کہا اور سجدۂ سہو کیا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011)
لیکن امام ابو داود ؒ نے خود ہی اس روایت کے شاذ ہونے کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے کہ ان الفاظ کو حماد بن زید کے علاوہ دوسرے راویوں نے بیان نہیں کیا۔
ہشام بن حسان سے ان کے دوسرے شاگرد جب اس روایت کو بیان کرتے ہیں تو وہ مذکورہ الفاظ ذکر نہیں کرتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1011) (2)
ابن جریج کی متابعت کو امام عبدالرزاق نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر سجدۂ سہو میں اللہ أکبر کہتے تھے۔
مسند امام احمد کی روایت بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر سجدہ کیا۔
اس کے بعد اللہ أکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا۔
اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔
ان تمام روایات میں صرف سجدہ کرتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے، تکبیر تحریمہ کا کوئی ذکر نہیں۔
اور جن روایات میں پہلے سجدے سے قبل دو دفعہ اللہ أکبر کہنے کا ذکر ہے وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
(فتح الباري: 134/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1230