سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
148. باب رَفْعِ النِّسَاءِ إِذَا كُنَّ مَعَ الرِّجَالِ رُءُوسَهُنَّ مِنَ السَّجْدَةِ
باب: عورتیں جب مردوں کے ساتھ ہوں تو سجدے سے اپنا سر کب اٹھائیں؟
حدیث نمبر: 851
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَوْلًى لِأَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الرِّجَالُ رُءُوسَهُمْ كَرَاهَةَ أَنْ يَرَيْنَ مِنْ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، وہ اپنا سر (سجدے سے) اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ مرد نہ اٹھا لیں، اس اندیشہ سے کہ ان کی نظر کہیں مردوں کے ستر پر نہ پڑے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15738)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/348، 349) (صحیح)» (عروہ نے اسماء کے مولی کی متابعت کی ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ابتداء اسلام میں لوگ بڑی تنگدستی اور محتاجی میں تھے، اکثر کو ایک تہبند یا چادر کے علاوہ دوسرا کپڑا میسر نہ ہوتا تھا، جسے وہ اپنی گردن پر باندھ لیتے تھے، جو بیک وقت کرتے اور تہبند کا کام دیتا تھا، کپڑوں کی تنگی کے باعث سجدہ میں ستر کے کھل جانے کا اندیشہ رہتا تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں کے بعد سر اٹھانے کا حکم دیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
فيه مولي أسماء مجهول
والحديث السابق (الأصل: 630) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 44
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 851 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 851
851۔ اردو حاشیہ:
➊ کپڑوں کی قلت اور ناداری کے باعث بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ایک ایک چادر میں نماز پڑھتے تھے۔ اور بعض اوقات وہ اس قدر مختصر ہوتی تھیں کہ انہیں گردنوں پر باندھے ہوتے تھے۔ اس لئے مذکورہ ہدایات دی گئیں اور اب اگرچہ حالات بدل گئے مگر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل واجب ہے۔ قرینہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید سے یہ فرمانا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے۔ نیز اس کی دوسری مثال طواف قدوم میں رمل کرنا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا، یہ بھی ایک وقتی ضرورت سے تھا۔ مگر جملہ ائمہ امت نے اس سنت کو «علي حالها» باقی رکھنا تسلیم کیا ہے۔
➋ صحابیات بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتی تھیں۔
➌ دوسرے کے ستر کو دیکھنا ناجائز ہے، اور اچانک نظر پڑنے کے اندیشے سے بھی بچنا چاہیے، البتہ زوجین اس سے مستثنٰی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 851
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:329
329- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے مؤمن خواتین کے گروہ! کوئی بھی عورت اپنے سر امام کے اٹھنے سے پہلے نہ اٹھائے“ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لئے فرمائی) کیونکہ مردوں کے کپڑے چھوٹے ہوتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:329]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتیں مردوں کے پیچھے صفیں بنا کر نماز پڑھ سکتی ہیں، اور یہ تب ہے جب کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ رزق کی تنگی عبادت میں آڑے نہیں آنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 329