Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
143. باب كَيْفَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ
باب: آدمی زمین پر ہاتھوں سے پہلے گھٹنے کس طرح رکھے؟
حدیث نمبر: 839
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ حَدِيثَ الصَّلَاةِ، قَالَ:" فَلَمَّا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ إِلَى الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ كَفَّاهُ". قَالَ هَمَّامٌ: وَحَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ هَذَا، وَفِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا، وَأَكْبَرُ عِلْمِي أَنَّهُ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ،" وَإِذَا نَهَضَ نَهَضَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَاعْتَمَدَ عَلَى فَخِذِهِ".
اس سند سے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت مروی ہے، اس میں ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑتے۔ ہمام کہتے ہیں: مجھ سے شقیق نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے عاصم بن کلیب نے اور عاصم نے اپنے والد سے کلیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے اور ان دونوں میں سے کسی کی حدیث میں اور میرا غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن جحادہ کی حدیث میں یہ ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو اپنی ران پر ٹیک لگا کر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل اٹھتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11762) (ضعیف) قد تقدم ہذا الحدیث برقم (736)» ‏‏‏‏ (عبدالجبار کا اپنے والد وائل سے سماع ثابت نہیں ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 839 کے فوائد و مسائل
  ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 839  
تبصرہ:
➊ شقیق کی روایت مرسل ہے کیونکہ عاصم کے والد کلیب بن شہاب تابعی ہیں۔ [تقريب ص 286]
➋ اس کی سند میں اضطراب ہے۔
➌ شقیق مجہول ہے [ميزان ص 289 ج 2]
ثانیاً: رہی ایک روایت محمد بن حجادۃ راوی کی، تو یہ منقطع ہے کیونکہ:
◈ عبدالجبار بن وائل نے یہ روایت اپنے والد سے نقل کی ہے اور عبدالجبار کا اپنے والد سے سماع ثابت نہیں۔
◈ امام نووی فرماتے ہیں:
«حديث ضعيف، لان عبدالجبار بن وائل اتفق الحفاظ على انه لم يسمع من ابيه شيئا ولم يدركه»
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ تمام آئمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ عبدالجبار نے اپنے والد سے کچھ بھی نہیں سنا اور نہ ہی انہیں (وائل بن حجر کو) دیکھا ہے۔ [المجوع شرع المهذب: ص 446 ج 3، و الضعيفه ص 330 ج 2]
خود حنفیہ کے نزدیک بھی عبدالجبار کا اپنے والد سے سماع و لقاء ثابت نہیں جیسا کہ:
◈ مولانا عبدالعزیز صاحب نے [بغية الالمعي: ص371 ج1] میں،
◈ مولانا سرفراز خاں صفدر نے [خزائن السنن: ص 81 ج2] میں،
◈ماسٹر امین اوکاڑوی نے [تحقيق مسئله آمين مندرجه مجموعه رسائل: ص 147 ج1] میں،
◈ اور ڈیروی نے [اظہار التحسین ص160] میں صراحت کی ہے۔
الغرض یہ روایت منفطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
   حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 34   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 839  
839۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ دونوں روایات سنداً ضعیف ہیں، اس لئے سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے نہیں بلکہ ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں، جیسا کہ اگلی حدیث [840] میں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 839   

  ابوسعيد سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 839  
تبصرہ:
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس کے راوی عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (631۔ 676ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
«حديث ضعيف، لأن عبد الجبار بن وائل؛ اتفق الحفاظ على أنه لم يسمع من أبيه شيئا، ولم يدركه .»
یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کوئی بھی حدیث نہیں سنی، نہ ہی اس کی اپنے والد سے (سن شعور میں) ملاقات ہے . [المجموع شرح المهذب: 446/3]
اس کی ایک متابعت بھی موجود ہے . [سنن أبی داؤد: 839، مراسیل أبی داؤد: 42]
لیکن یہ روایت بھی دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ کلیب بن شہاب تابعی ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں،
لہذا یہ مرسل ہے اور مرسل روایت ضعیف ہی کی ایک قسم ہے .
➋ شقیق، ابولیث راوی مجہول ہے۔
اسے امام طحاوی حنفی [شرح معاني الآثار: 255/1]، حافظ ذہبی [ميزان الاعتدال: 279/2] اور حافظ ابن حجر [تقريب التهذيب: 2819] رحمها اللہ نے مجہول قرار دیا ہے .
لہٰذا اس کی متابعت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 71