سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
141. باب مَا يُجْزِئُ الأُمِّيَّ وَالأَعْجَمِيَّ مِنَ الْقِرَاءَةِ
باب: ان پڑھ (اُمّی) اور عجمی کے لیے کتنی قرآت کافی ہے؟
حدیث نمبر: 832
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالَانِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، فَعَلِّمْنِي مَا يُجْزِئُنِي مِنْهُ؟ قَالَ:قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا لِي؟ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي، فَلَمَّا قَامَ، قَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ مَلَأَ يَدَهُ مِنَ الْخَيْرِ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو اس کے بدلے مجھے کفایت کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو“، اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو اللہ کی تعریف ہوئی، میرے لیے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہا کرو «اللهم ارحمني وارزقني وعافني واهدني» ”اے پروردگار! مجھ پر رحم فرما، مجھے روزی دے، مجھے عافیت دے اور مجھ کو ہدایت دے“، جب وہ شخص کھڑا ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا ۱؎ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تو اپنا ہاتھ خیر سے بھر لیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ افتتاح 32 (925) (تحفة الأشراف: 5150)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/353، 356، 382) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں ہاتھوں کو سمیٹا جس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس نے ان باتوں کو محفوظ کر لیا ہے جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا ہے جس طرح کوئی عمدہ چیز سمیٹ کر آدمی اسے محفوظ کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (858)
أخرجه الحميدي (717 وسنده حسن) إبراھيم السكسكي وثقه الجمھور
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 832 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 832
832۔ اردو حاشیہ:
سابقہ احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ کم از کم قرات فاتحہ واجب ہے۔ لہٰذا جو کوئی ازحد عاجز ہو اور کسی بھی معقول سبب سے سورۃ فاتحہ قرآن مجید پڑھنے یا یاد رکھنے پر قادر نہ ہو تو اسے مذکورہ بالا ذکر سے اپنی نماز پوری کرنی چاہیے۔ اس قسم کے دیگر کلمات طیبات پڑھا کرے۔ شارح مصابیح نے اشارہ کیا ہے کہ اس سائل کا سوال یہ تھا کہ میں فوری طور پر کچھ یاد نہیں کر سکتا۔ جب کہ نماز فرض ہو چکی ہے تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ [عون المعبود]
بہرحال بوڑھے کھوسٹ مردوں عورتوں اور کمزور عقل افراد کے لئے رخصت ہے کہ وہ اس قسم کے ذکر سے اپنی نماز پڑھ سکتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 832
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 223
´نماز میں اگر کسی کو قرآن پاک میں سے کچھ بھی نہیں`
«. . . وعن عبد الله بن ابي اوفى رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: إني لا استطيع ان آخذ من القرآن شيئا فعلمني ما يجزئني عنه. فقال: قل: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکتا۔ لہذا مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیں جو (میری نماز کے لئے) اس کی جگہ کافی ہو جائے۔ فرمایا ” «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» پڑھ لیا کرو . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 223]
لغوی تشریح:
«فَعَلِّمْنِي» تعلیم سے امر کا صیغہ ہے۔
«مَا يُجْزِئُنِي» ”زا“ کے بعد ہمزہ ہے، معنی یہ ہیں کہ جو میرے لیے کافی ہو جائے۔
«مِنْهُ» قرآن کے بدلے میں۔
«حَوْلَ» قدرت اور حیلہ۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کو قرآن پاک میں سے کچھ بھی نہیں آتا تو مجبوری کی صورت میں یہ کلمات پڑھنے سے نماز ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں شارح مصابیح نے اشارہ کیا ہے کہ اس سائل کا سوال یہ تھا کہ میں فوری طور پر کچھ یاد نہیں کر سکتا جبکہ نماز فرض ہو چکی ہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ [عون المعبود]
➋ اس روایت سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ سورہ فاتحہ نماز میں فرض نہیں ہے تو یہ سینہ زوری ہے ورنہ کہاں مجبوری کی حالت اور کہاں غیر مجبوری۔ یہ آدمی تو معذور تھا، اس لیے معذوری کے دور ہونے تک اسے متبادل راستہ بتلایا گیا ہے۔ معذور کے لیے شریعت مطہرہ نے بہرصورت رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ عارضی رعایت سے احکام میں تغیر و تبدل نہیں ہو جاتا۔ ایک معذور آدمی اگر یہ کہے کہ میں وضو نہیں کر سکتا اور کہا جائے کہ بھئی پھر تم تیمم کرلو تو کیا اس کا یہ مطلب لینا صحیح ہو گا کہ اب وضو فرض ہی نہیں رہا۔ کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ عدم استطاعت وضو کی صورت میں تیمّم کا مشورہ وضو کی فرضیت ساقط کر دے گا۔ اس لیے مجبوری کی صورت میں اگر ان کلمات کے پڑھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے فاتحہ کی فرضیت کیسے ساقط ہو گئی؟
راویٔ حدیث: (سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما) ان کی کنیت ابومحمد یا ابومعاویہ ہے۔ ان کے والد کا نام علقمہ بن حارث اسلمی ہے۔ خود بھی شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اور باپ بھی۔ باپ بیٹا دونوں صحابی ہیں۔ صلح حدیبیہ اور خیبر میں شریک ہوئے اور بعد والے غزوات میں بھی حصہ لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوفہ منتقل ہو گئے۔ 87ھ میں وفات پائی۔ کوفہ میں وفات پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 223