Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
141. باب مَا يُجْزِئُ الأُمِّيَّ وَالأَعْجَمِيَّ مِنَ الْقِرَاءَةِ
باب: ان پڑھ (اُمّی) اور عجمی کے لیے کتنی قرآت کافی ہے؟
حدیث نمبر: 830
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَفِينَا الْأَعْرَابِيُّ وَالْأَعْجَمِيُّ، فَقَالَ:" اقْرَءُوا فَكُلٌّ حَسَنٌ، وَسَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَامُ الْقِدْحُ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے) اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی پڑھیں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/357، 397) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (2206)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 830 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 830  
830۔ اردو حاشیہ:
➊ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلو ب ہے اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کے لئے عربی اسلو ب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قرأت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔
➋ ایسے لوگوں کا پیدا ہو جانا جو قرأت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی ساز و سامان) جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیں، آثار قیامت میں سے ہے۔
➌ ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواز کے زیر و بم ہی کو قراءت جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کر لینا ازحد معیو ب ہے۔
➍ تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔
➎ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم «احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله» سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر (عوض و اجرت) لے سکتے ہو اللہ کی کتاب ہے۔ [صحيح بخاري كتاب الا جارة باب 16]
اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت، عوض نہ لینے میں ہے۔ تاہم امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے، ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کر لے۔ جناب حسن بصری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔ [حواله مذكور]
بہرحال مدرس اور داعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں، اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں اور عوض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے، کوئی جرم نہیں، لیکن اگرنیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 830