Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
123. باب مَا يُسْتَفْتَحُ بِهِ الصَّلاَةُ مِنَ الدُّعَاءِ
باب: نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟
حدیث نمبر: 770
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ:" كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا آنِفًا؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلَاثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ".
رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر «سمع الله لمن حمده» کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک آدمی نے «اللهم ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ابھی ابھی یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں؟، اس آدمی نے کہا: میں نے، اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا جو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون پہلے ان کلمات کو لکھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 126 (799)، سنن النسائی/الافتتاح 36 (932)، التطبیق 22 (1063)، (تحفة الأشراف: 3605)، موطا امام مالک/القرآن 7 (25)، مسند احمد (4/340)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 184 (404) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (799)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 770 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 770  
770۔ اردو حاشیہ:
رکوع سے اٹھ کر مذکورہ دعا کر پڑھنا مستحب ہے۔
مگر تمام ہی مقتدی اونچی آواز سے پکار کر پڑھیں، صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس لئے تمام مقتدیوں کے لئے ان کلمات کو بہ آواز بلند کہنے کا پابند کرنا صحیح نہیں، نہ اس حدیث سے اس کا اثبات ہی ہوتا ہے، اس سے صرف ان کلمات کی فضیلت اور اسے اس موقع پر پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے نہ کہ تمام مقتدیوں کا اونچی آواز سے پڑھنے کا نیز دیکھئے سنن ابی داود حدیث۔ [773]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 770   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 122  
´رکوع کے بعد کی دعائیں`
«. . . 269- وعن نعيم بن عبد الله المجمر عن على بن يحيى الزرقي عن أبيه عن رفاعة ابن رافع الزرقي أنه قال: كنا يوما نصلي وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه من الركعة وقال: سمع الله لمن حمده، قال رجل وراءه: ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من المتكلم آنفا؟، فقال الرجل: أنا يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقد رأيت بضعة وثلاثين ملكا يبتدرونها أيهم يكتبها أولا. . . .»
. . . سیدنا رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور فرمایا: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» جس نے اللہ کی حمد کی اسے اللہ نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (نماز پڑھنے والے) ایک آدمی نے کہا: «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے، بہت زیادہ، پاک اور مبارک، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ابھی کس نے (نماز میں) کلام کیا تھا؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے یا رسول اللہ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیس (۳۰) سے زیادہ فرشتے دیکھے کہ اسے پہلے لکھنے میں ایک دوسرے سے جلدی کر رہے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 122]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 799، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ رکوع کے بعد «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْد» اور «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد» دونوں طرح کہنا جائز ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ» پڑھا جائے، اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔
➋ امام ہو یا مقتدی سب کو «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» ۔ اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» إلخ کہنا چاہئے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ دیکھئے [سنن الدارقطني 1/339، 340، ح1270، وسنده حسن]
➌ اجتہاد جائز ہے۔
➍ ذکر کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی اگرچہ وہ ذکر اپنے اجتہاد سے کیا جائے بشرطیکہ یہ کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو۔
➎ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتے دکھا دیتا تھا جب کہ عام لوگ انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔
➏ آواز سننے کے باوجود آدمی کو نہ پہچاننا اور پھر اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھنا اس با ت کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 269   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 773  
´نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھ کو (رفاعہ) کو چھینک آئی۔ اور قتیبہ نے اپنی روایت میں «رفاعة» کا لفظ ذکر نہیں کیا - تو میں نے یہ دعا پڑھی: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، ایسی تعریف جو پاکیزہ، بابرکت اور پائیدار ہو، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مڑے اور پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے ہم مثل اور اس سے زیادہ کامل روایت ذکر کی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 773]
773۔ اردو حاشیہ:
حدیث مالک سے مراد پیچھے گزری ہوئی «قعنبي عن مالك» والی حدیث نمبر [769] ہے، معلوم ہوا کہ نماز میں چھینک آئے۔ تو مذکورہ دعا یا «الحمد لله» کہنا مباح ہے۔ ان دونوں احادیث (یعنی سنن ابی داود حدیث نمبر 770۔ اور 773) کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید رکوع سے اٹھنے اور چھینک آنے کا وقت ایک ہی تھا کہ جناب رفاعہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 773   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 932  
´جب مقتدی کو امام کے پیچھے چھینک آئے تو کیا کہے؟`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے کیسے کہا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 932]
932 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 799]
➋ چھینک بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس سے دماغ کھل جاتا ہے۔ طبیعت چست ہو جاتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے صرف الحمدللہ کہنا کافی ہے۔ مزید اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ اس روایت میں ہے۔
➌ پہلی دفعہ جواب نہ دینا، اس ڈر کی بنا پر تھا کہ شاید میں نے غلطی کی ہے۔
➍ اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کے دوران میں چھینک آنے پر جہراً الحمدللہ کہنا بھی درست ہے۔ واللہ أعلم۔
➎ جب امام اپنے مقتدیوں میں کوئی نئی چیز محسوس کرے تو اس کے متعلق دریافت کرے اور مقتدیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرے۔
➏ نماز میں چھینک مارنے والا الحمدللہ کہے تو اس کا جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ میں سے کسی نے اس آدمی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی شخص جواب دے گا تو اس کی نمازباطل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔
➐ اس حدیث مبارکہ سے مذکورہ ذکر کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ ذکر بہت پسند ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 932   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1063  
´مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو «سمع اللہ لمن حمده‏» کہا، تو آپ کے پیچھے ایک شخص نے «ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں جو پاکیزہ و بابرکت ہیں کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی ابھی (نماز میں) کون بول رہا تھا؟ تو اس شخص نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا ان میں سے ہر ایک سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کون پہلے لکھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1063]
1063۔ اردو حاشیہ:
➊ ان روایات میں مقتدی کے لیے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہنے کی نفی ہے نہ ذکر و اثبات، اس لیے دیگر مفصل روایات کی طرف رجوع لازمی ہے، جیسا کہ حدیث: 1063 کے فوائد کے تحت گزر چکا ہے۔
➋ بعض حضرات نے اس روایت سے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر استدلال کیا ہے مگر حیرانی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ کے طرز عمل کو نظر انداز کر دیا جو آہستہ پڑھتے تھے اور ایک صحابی کے اتفاقی فعل سے استدلال کر لیا، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ فعل اس صحابی سے بے اختیار یا اتفاقاً صادر ہوا تھا۔ اگر یہ عام معمول ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کیوں فرماتے؟ لٰذا یہ کلمات آہستہ ہی کہنے چاہئیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1063   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 404  
´نماز میں چھینکنے کا بیان۔`
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» کہا جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 404]
اردو حاشہ:
1؎:
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:
و أفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلك الصلاة كانت المغرب (یہ مغرب تھی) یہ روایت ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیا ہے۔
مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران اُنہیں چھینک بھی آئی تھی،
تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع و تطبیق یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے ((الْحَمْدُ لِلَّهِ)) کہنے کی بجائے جی میں کہے۔

نوٹ:
(سند حسن ہے،
لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 404   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:799  
799. حضرت رفاعہ بن رافع زرقی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا تو ایک شخص نے (بآواز بلند) (رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ) پڑھا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ وہ شخص بولا: میں نے پڑھے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے کہ کون انہیں پہلے قلمبند کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:799]
حدیث حاشیہ:
(1)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات کہنے والے خود راوئ حدیث حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تسمیع وظیفۂ اعتدال، یعنی قومے کا وظیفہ ہے جبکہ حدیث ابو ہریرہ ؓ میں اسے وظیفۂ انتقال بتایا گیا ہے اور معروف بھی یہی ہے۔
تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھانا شروع کیا تو سمع الله لمن حمده کہنے کی ابتدا کی اور حالت قومہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔
(فتح الباري: 2/ 369، 370) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں غیر ماثور اذکار کا اضافہ جائز ہے بشرطیکہ مسنون اذکار کے مخالف نہ ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 2/ 371)
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان حالات میں ایسا کرنا درست نہیں، البتہ زمانۂ نبوت میں ایسا کرنا جائز تھا کیونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور باطل، حق کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا تھا لیکن انقطاع وحی کے بعد جبکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے عبادات میں ایسے الفاظ کی زیادتی جو شریعت سے ثابت نہ ہو، محل نظر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 799