Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
119. باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
باب: نماز شروع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 739
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي هُبَيْرَةَ، عَنْ مَيْمُونٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَّى بِهِمْ، يُشِيرُ بِكَفَّيْهِ حِينَ يَقُومُ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ وَحِينَ يَنْهَضُ لِلْقِيَامِ فَيَقُومُ فَيُشِيرُ بِيَدَيْهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ صَلَّى صَلَاةً لَمْ أَرَ أَحَدًا يُصَلِّيهَا، فَوَصَفْتُ لَهُ هَذِهِ الْإِشَارَةَ، فَقَالَ:" إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْتَدِ بِصَلَاةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ".
میمون مکی سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت اور رکوع کرنے کے وقت اور سجدہ اور قیام کے لیے اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور جا کر میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن زبیر کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا کہ کسی اور کو اس طرح پڑھتے نہیں دیکھا، پھر میں نے ان سے اس اشارہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھنا چاہتے ہو تو عبداللہ بن زبیر کی نماز کی پیروی کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6509) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابن لھیعہ ضعیف اور میمون مکی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 3/326)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن لھيعة عنعن وھو ضعيف فيما يروي بعد اختلاطه
و ميمون المكي: مجهول (تقريب:7054)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 39

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 739 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 739  
739۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث میں سجدوں میں رفع الیدین کا اثبات ہے مگر عام محدثین ابن لہیعہ کی بنا پر اس کی سند کو کمزور کہتے ہیں۔ خلاصۃ تذہیب تہذیب الکما ل للخزرجی میں ہے: امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں جل گئی تھیں، تاہم یہ صحیح الکتاب ہیں۔ جن لوگوں نے ان سے ابتداء میں سنا ہے ان کا سماع صحیح ہے، یحییٰ بن معین نے کہا: یہ قوی نہیں ہیں، امام مسلم کہتے ہیں کہ ان کو وکیع، یحیی قطان اور ابن مہدی نے ترک کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کتابیں جلنے کے بعد انہیں خلط ہو گیا تھا۔ صحیح مسلم میں ان کی روایات ہیں مگر دوسرے رواۃ کی معیت سے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ سند صحیح ہے۔ علامہ صاحب موصوف اور بعض دیگر بھی ان احادیث کی روشنی میں سجدوں کے رفع الیدین کو بعض اوقات پر محمول کرتے ہیں۔ بہرحال جمہور محدثین کے نزدیک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہی جو پیچھے گزری اور صحیح بخاری میں بھی ہے، معمول بھا ہے اور اس میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں یا سجدوں سے اُٹھ کر رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 739